خلاصہ: زیارت جامعہ کبیرہ کی تشریح کرتے ہوئے "مھبط الوحی" کی وضاحت کی جارہی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
زیارت جامعہ کبیرہ میں حضرت امام علی النقی الہادی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "اَلسَّلامُ عَلَيْكُمْ يا اَهْلَ بَيْتِ النُّبُوَّةِ، وَ مَوْضِعَ الرِّسالَةِ، وَ مُخْتَلَفَ الْمَلائِكَةِ، وَ مَهْبِطَ الْوَحْى"، "آپ پر سلام ہو اے نبوت کا گھرانہ، اور رسالت کا مقام، اور ملائکہ کے آمد و رفت کا مقام، اور وحی کے اترنے کا مقام"۔
قرآن کریم میں وحی کی مختلف قسمیں بیان ہوئی ہیں۔ اگر "مَهْبِطَ الْوَحْى"، "وحی کے اترنے کا مقام" کے فقرے میں وحی کو "الہام" کے معنی میں سمجھا جائے تو ائمہ طاہرین (علیہم السلام) حقیقی معنی میں "وحی کے اترنے کا مقام" ہیں۔ دوسرے لفظوں میں امامؑ پر وحی ہوتی ہے اور امامؑ کا عالَم غیب سے خاص رابطہ ہے۔
ائمہ اطہار (علیہم السلام) کے بعض اصحاب عالَم غیب سے امام کے رابطہ کی کیفیت کے بارے میں سوالات پوچھتے تھے اور ان کے کلام میں گویا ایک قسم کا تعجب ہوتا تھا۔ ائمہ طاہرین (علیہم السلام) بھی مختلف موارد میں ایسے رابطہ کی وضاحت کرتے تھے۔
حارث ابن مُغیرہ کا کہنا ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے دریافت کیا: "ما عِلمُ عالِمِكُم، أجُملَةٌ يُقذَفُ في قَلبِهِ أو يُنكَتُ في اُذُنِهِ؟"، "آپؑ کے عالِم کا علم کیسا ہے؟ کیا ایسا جملہ ہے جو اس کے دل میں ڈالا جاتا ہے یا اس کے کان میں الہام ہوتا ہے؟ تو آپؑ نے فرمایا: "وَحْىٌ كَوَحْى اُمِّ موسى"، "مادرِ موسی کی وحی جیسی وحی ہے"۔ [بحارالانوار، ج۲۶، ص۵۸]
۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[ماخوذ از: تفسیر قرآن ناطق، محمدی ری شہری]
[بحارالانوار، علامہ مجلسی علیہ الرحمہ]
Add new comment