صِلِۂ رَحِم، رشتہ داروں سے اسلامی تعلیمات اور اخلاق کے مطابق رابطہ رکھنے، مدد کرنے اور ان سے ملاقات کرنے کو کہا جاتا ہے۔ قرآن اور احادیث میں صلہ رحمی کی بہت تاکید ہوئی ہے اور قرآن میں قطع رحمی کرنے والے کو خسارت والے[بقرہ: ۲۷] اور لعنت ہونے ہونے والوں[سورہ محمد، آیہ ۲۲ و ۲۳] میں سے قرار دیا ہے۔
آیات وروایات میں صلہ رحمی کو ایمان کے بعد بہترین عمل، مومن کی بہترین صفت اور عمر لمبی ہونے کا سبب بیان کیا گیا ہے۔ حدیث قدسی کے مطابق صلہ رحمی اللہ کی رحمت ہے اور جو بھی اسے ترک کرے گا وہ اللہ کی رحمت سے محروم ہوگا۔ صلہ رحم کبھی واجب ہے اور کبھی مستحب۔ قطع رحم یعنی رشتہ داروں سے رابطہ کاٹنا گناہان کبیرہ میں سے ایک ہے یہاں تک کہ وہ رشتہ دار بداخلاق اور گناہگار ہی کیوں نہ ہو،ایک دوسرے سے ملاقات اور ایک دوسرے کے ہاں جانا یہ صلہ رحمی کی ایک مثال ہے۔
آیت:....وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا؛اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتے ناطے توڑنے سے بھی بچو بے شک اللہ تعالیٰ تم پر نگہبان ہے۔[سوره مبارکه نساء آیه ۱] وَالَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِن بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ أُولَٰئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ؛ اور جو لوگ عہدُ خدا کو توڑ دیتے ہیں اور جن سے تعلقات کا حکم دیا گیا ہے اان سے قطع تعلقات کرلیتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں ان کے لئے لعنت اور بدترین گھر ہے۔[سوره مبارکه رعد آیه ۲۵]
حدیث: پیغمبراکرم صلّی الله علیه و آله وسلّم: اِنَّ القَومَ لَيَكونونَ فَجَرَةً وَ لا يَكونونَ بَرَرَةً فَيَصِلونَ اَرحامَهُم فَتَنمى اَموالُهُم وَ تَطولُ اَعمارُهُم فَكَيفَ اِذا كانوا اَبرارا بَرَرَةً!؛ وہ لوگ جو گنہگار ہیں ، اور اچھے بھی نہیں ہیں،صلۂ رحم کی وجہ سےانکی جائداد زیادہ اوروہ لمبی عمر پاتے ہیں، کیا ہو اگر وہ نیک اور اچھے بھی ہوجائیں؟[كافى(ط-الاسلامیه)جلد2صفحه155] امام على عليه السّلام: صِلَةُ الرَّحِمِ توجِبُ المَحَبَّةَ وَتَكبِتُ العَدُوَّ؛ صلۂ رحم، محبت میں زیادتی کا باعث اور دشمن کو خوار و ذلیل بناتا ہے۔[شرح آقا جمال الدین خوانساری بر غررالحکم ودررالکلم جلد صفحه209 حدیث 5825] امام صادق علیه السّلام: مَن زَارَ أخاهُ فِی اللهِ قالَ اللهُ عَزَّ وَ جَلَّ إیّایَ زُرتَ وَ ثَوَابُکَ عَلَیَّ وَ لَستُ أرضَی لَکَ ثَوَاباً دونَ الجَنَّة.؛ جو شخص خدا کی خاطر اپنے بھائی کی زیارت کرتا ہے ، خدا اس کے لیے فرماتا ہے: تم میری زیارت پر آئے ہو اور تمہارا اجر مجھ پر ہے ، اور میں تیرے لیے جنت کے سوا کسی اور اجر سے مطمئن نہیں ہوں۔[کافی(ط-الاسلامیه)جلد2 صفحه 176]
واقعہ: امام صادق (ع) کے چچازاد لڑکےحسین ابن علی کا شمار بہت بہادر اور طاقتور افراد میں ہوتا تھا، جنھیں رمح ال ابوطالب (ابو طالب کے خاندان کا نیزہ) کہا جاتا تھا؛ ناک کی ہڈّی بلند ہونے کی وجہ سےحسن افطس کے نام سے شہرت تھی،عباسی خلیفہ، منصور داونقی کے خلاف، عبد اللہ محض( حضرت امام حسن (ع) کے پوتے )کی جنگ میں فوج کا پرچم انہی کے ہاتھ میں تھا؛کچھ جنگی وجوہات کی بنا پر امام صادق(ع) کے ساتھ اَن بَن تھی ،کچھ اس حد تک کہ ایک بار قتل کی نیت سےامام(ع) پر حملہ بھی کردیا؛ ان سب باتوں کے باوجود امام کی کنیز سالمہ کا بیان ہے کہ: میں امام جعفر صادق(ع)کی وفات کے وقت ان کے پاس تھی کہ ایک دفعہ حضرت پر غش کی حالت طاری ہوئی جب افاقہ ہوا تو فرمایاکہ حسن ابن علی ابن حسین افطس کو ستراشرفی دو اور فلاں فلاں کو اتنی مقدار دو۔ میں نے کہا: کیا آپ ایسے انسان پر عطا و بخشش کرینگے جس نے آپ پر خنجر سے حملہ کیا؟ اور آپ کو قتل کرنا چاہتا تھا؟ فرمایا: تو چاہتی ہے کہ میں ان لوگوں میں سے نہ بنوں جن کی خدا نے صلہ رحمی کے ساتھ مدح کی ہے اور ان کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ " جو لوگ ان کے ساتھ صلہ رحمی کرتے ہیں جن کے ساتھ خدانے صلہ رحمی کا حکم دیا ہے اور برے حساب سے ڈرتے ہیں" پھرحضرت- نے فرمایا:" اے سالمہ خدا نے بہشت کو پیدا کیا اور اسے معطر کیا اور اس کی خوشبو دو ہزار سال کی راہ تک پہنچی ہے لیکن یہ خوشبو عاقِ والدین اور قطع رحمی کرنے والا نہیں سونگھے گا"۔[یکصد موضوع 500 داستان علی اکبرصداقت]
.................
منابع
شرح آقا جمال الدین خوانساری بر غررالحکم ودررالکلم
کلینی،کافی(ط-الاسلامیه)
یکصد موضوع 500 داستان علی اکبرصداقت
Add new comment