خلاصہ: اصول کافی کی احادیث بیان کرتے ہوئے حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) کی اس نورانی حدیث کے بارے میں گفتگو کی جارہی ہے جو آپؑ نے عقلمند آدمی کے دو صفات بیان فرمائے۔
حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) نے جناب ہشام ابن حکم سے فرمایا: "يَا هِشَامُ إِنَّ اَلْعَاقِلَ اَلَّذِي لاَ يَشْغَلُ اَلْحَلاَلُ شُكْرَهُ وَ لاَ يَغْلِبُ اَلْحَرَامُ صَبْرَهُ"، "اے ہشام! یقیناً عقلمند وہ ہے جسے حلال اس کے شکر سے غافل نہ کردے اور حرام اس کے صبر پر غالب نہ ہوجائے"۔ [الکافی، ج۱، ص۱۶]
بعض اوقات جب انسان کے پاس زیادہ سہولیات نہیں ہوتیں تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مناجات کرتا ہے اور عبادات میں مصروف رہتا ہے، لیکن جب نعمتیں اس کی طرف رخ کرتی ہیں اور اللہ تعالیٰ اس کی دنیا کو آباد کردیتا ہے تو رفتہ رفتہ اس کی مناجات کم ہوجاتی ہیں، نمازوں کو آخری وقت پر پڑھتا ہے یا بالکل نہیں پڑھتا اور برے صفات کا حامل ہوتا جاتا ہے، اس کی وجہ اس آدمی کی بے عقلی ہے۔
عقلمندی یہ ہے کہ انسان کا جب بوجھ زیادہ ہوجائے تو اس کا سر زیادہ نیچے ہوجاتا ہے۔ لہذا عقلمند آدمی، اللہ تعالیٰ کے شکر کو جاری رکھتا ہے۔ انسان کی عقل بڑھنے سے جیسے اس کے تواضع اور انکساری میں اضافہ ہوجاتا اسی طرح عقلمند انسان کے لئے مادّی سہولیات کے لحاظ سے جتنی زیادہ وسعت پیدا ہوجائے، معنوی لحاظ سے بھی اپنے اندر اتنی زیادہ وسعت پیدا کرلیتا ہے، ورنہ انسان تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔ بہت سارے لوگ ان دو حالتوں کے درمیان توازن قائم نہیں کرسکتے، یعنی اللہ تعالیٰ کے شکر، مناجات اور عبادات کو تب تک جاری رکھتے ہیں کہ ان کی دنیاوی سہولیات وسیع نہ ہوں، اور جیسے وسیع ہونے لگیں تو ان کی معنویت کم ہوجاتی ہے۔
* الکافی، شیخ کلینی، ج۱، ص۱۶۔
Add new comment