خلاصہ: انسان کا ظاہر ہمیشہ اس کے باطن کو واضح نہیں کرتا، جب وہ امتحان میں پڑتا ہے تو اس وقت اس کی حقیقت اور باطن کھل کر سامنے آجاتا ہے۔
اس رنگ برنگ دنیا میں اور ان پیچ و خم والے طرح طرح کے راستوں پر چلتے ہوئے انسان عقل، سوچ اور ذہنی طاقت کا حامل ہے جو عقل کو استعمال کرتے ہوئے اپنے اختیار سے صحیح راستے کو منتخب کرسکتا ہے اور گمراہی اور غلط راستے میں قدم اٹھانے سے پرہیز کرسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کہ انسان کامیابی کی منزل تک پہنچے تو اس بلند منزل تک پہنچنے کے لئے اس حکیم ربّ نے انسان کے سامنے امتحان کا مسئلہ رکھا ہے، کیونکہ جو چیز انسان کی حقیقت کو واضح کردیتی ہے، انسان کو پروان چڑھاتی ہے اور ناگوار حادثات کے سامنے مضبوط کرتی ہے، مشکلات کے سامنے پائدار کرتی ہے، تکلیفوں کو برداشت کرنے کی قوت کو انسان میں بڑھاتی ہے یا نالائق افراد کی کم ظرفی کو واضح کردیتی ہے، وہ انسان کے امتحانات ہیں۔ جیسا کہ حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) نہج البلاغہ کی حکمت 217 میں ارشاد فرماتے ہیں: "فِي تَقَلُّبِ الاْحْوَالِ، عِلْمُ جَوَاهِرِ الرِّجَالِ"، حالات کی تبدیلیوں میں افراد کے جوہر پہچانے جاتے ہیں۔ زندگی کے حادثات، مالداری، غربت، صحت، بیماری، کامیابی، ناکامی، عہدہ مل جانا، عہدہ کا چھِن جانا، حرام مال کا آسانی سے دستیاب ہونا، حلال مال کا مشکل سے حاصل ہونا، گناہ کرنے اور گناہ سے فرار کرنے پر اختیار جیسے امتحان انسان کی حقیقت کو واضح کردیتے ہیں اور دکھا دیتے ہیں کہ انسان کتنا اپنی نفسانی خواہشات پر قابو پاسکتا ہے اور وہ کتنا تزکیہ نفس کرتا ہے۔ زندگی کے نشیب و فراز، مشکلات اور خوشیوں میں اس کا کتنا ظرف ہے، کیا آپے سے باہر ہوجاتا ہے اور عُجب، غرور اور تکبر کا شکار ہوجاتا ہے یا اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں پر اپنے ربّ کا شکر ادا کرتا ہے۔ جب سخت حالات آتے ہیں تو حرام راستوں پر چل کر گمراہ ہوجاتا ہے یا صبر کرکے اللہ سے مدد مانگتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
[نہج البلاغہ، سید رضی علیہ الرحمہ]
Add new comment