خلاصہ: انسان سمجھتا ہے کہ جب اسباب کٹ گئے تو وہ اکیلا رہ گیا، جبکہ ایسا نہیں ہے، کیونکہ بعض اوقات اسباب انسان اور اللہ کے درمیان حجاب ہوتے ہیں، جب اسباب سے رابطہ کٹ جائے تو انسان مضطر ہوکر اللہ کو پکارتا ہے۔
جب اسباب انسان کا ساتھ نہ دے رہے ہوں تو اسباب کے لحاظ سے پریشانی کی بات نہیں ہے، بلکہ آدمی کے لئے یہ پریشانی کی بات ہے کہ اب تک وہ کیوں سمجھتا رہا کہ اسباب اس کے مسائل کو حل کررہے ہیں۔
مگر یہ لمحہ فکریہ اور ہدایت پانے کا موقع بھی ہے کہ انسان اس بات کا ادراک کرلے کہ اب جو اسباب سے اس کا رابطہ کٹ گیا ہے تو واضح ہوگیا ہے کہ اب تک اِس لحاظ سے اس کا رابطہ اللہ تعالیٰ سے کٹا ہوا تھا۔ اس نے اسباب کو اپنے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان حجاب بنا دیا، یعنی ہر موقع پر اسباب کو دیکھتا رہا اور یہ نہ دیکھا کہ ان اسباب سے بالاتر اللہ کی قدرت، ارادہ اور اذن ہے۔
سورہ انعام کی آیت ۴۲، ۴۳ میں ارشاد الٰہی ہورہا ہے: "وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَىٰ أُمَمٍ مِّن قَبْلِكَ فَأَخَذْنَاهُم بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ . فَلَوْلَا إِذْ جَاءَهُم بَأْسُنَا تَضَرَّعُوا وَلَـٰكِن قَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ"، "بلکہ اے رسول(ص) بے شک ہم نے آپ سے پہلے بہت سی امتوں کی طرف پیغمبر بھیجے اور ان کی نافرمانی پر پہلے تو ہم نے ان کو تنگدستی اور تکلیف میں مبتلا کیا تاکہ تضرع و زاری کریں۔ جب ان کے پاس ہماری طرف سے سختی آئی تو آخر انہوں نے تضرع و زاری کیوں نہ کی؟ لیکن ان کے دل تو اور بھی سخت ہوگئے اور شیطان نے (ان کی نظروں میں) ان کاموں کو جو وہ کرتے تھے آراستہ کرکے پیش کیا"۔
* ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
Add new comment