خلاصہ: نہج البلاغہ کی تشریح کرتے ہوئے اس فقرے کے بارے میں گفتگو کی جارہی ہے جس میں اس بات کی نفی کی جارہی ہے کہ اللہ کسی چیز کے اندر ہو۔
نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ میں حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "وَمَنْ قَالَ «فِيمَ؟» فَقَدْ ضَمَّنَهُ"، "اور جو کہے: (اللہ) کس چیز میں ہے؟ تو اس نے اسے (مخلوقات کے) اندر سمجھ لیا"۔
تشریح:
آپؑ کے اس فقرے میں اللہ کی پاک ذات کا مکان کے لحاظ سے لامحدود ہونا بیان ہورہا ہے۔ جو لوگ سوال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ کس چیز میں ہے تو انہوں نے مخلوقات کے اندر سمجھا ہے۔
لفظ "فی" یعنی "میں" وہاں پر استعمال ہوتا ہے جہاں ایک چیز دوسری چیز کا ظرف بنے اور اس پر احاطہ کرلے، جیسے انسان کا گھر میں ہونا اور پھول کا باغ میں ہونا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ چیز محدود ہے، جبکہ اللہ کی ذات ہر لحاظ سے لامحدود ہے۔ [پیام امام، ج۱، ص۹۶]
اللہ تعالیٰ کے صفات سلبی میں سے ایک صفت سلبی یہ ہے کہ وہ کسی "جگہ" میں نہیں ہے، بلکہ وہ ہر جگہ پر احاطہ کیے ہوئے ہے، کیونکہ کسی خاص جگہ کو گھیرنا مادی اور جسمانی مخلوقات کے صفات میں سے ہے اور یہ ان مخلوقات کے وجود کی محدودیت کا لازمہ ہے،حالانکہ اللہ تعالیٰ ہرطرح کی محدودیت سے پاک و منزہ ہے۔ ہر جگہ کو اللہ تعالیٰ نے خود خلق کیا ہے اورہرجگہ اللہ کی مخلوق ہے اور اللہ کی محتاج ہے۔
۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[اصل مطالب ماخوذ از: پیام امام، آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی، ناشر: دار الكتب الاسلاميه، تہران، ۱۳۸۶ھ ۔ ش، پہلی چاپ]
Add new comment