خلاصہ: فلاح اور کامیابی کا مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کے بارے میں مختصر سی گفتگو کی جارہی ہے۔
قرآن کریم واجب اور حرام کو بیان کرنے کے علاوہ بہت ساری آیات میں تربیتی نکات بھی مدنظر ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ قرآن کریم صرف بتائے کہ فلان چیز واجب اور فلان چیز حرام ہے۔ قرآن کریم اس طریقے سے ہمیں سکھاتا ہے کہ اِس راستے میں کامیاب ہونے کے لئے ہمیں کن باتوں کی طرف توجہ کرنی چاہیے اور کون سی بات اہمیت کی حامل ہے۔
مثلاً سورہ مومنون اس آیت سے شروع ہوتی ہے: "قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ"، "یقیناً مومنین فلاح پاگئے"۔ فلاح کی وضاحت یہ ہے کہ جب آدمی ایسے راستے میں قرار پائے جس میں آدمی کے سامنے کچھ رکاوٹیں، کانٹے، گڑھے، پھسلنے کی جگہیں ہوں تو اگر اس راستے سے صحیح سلامت گزر جائے تو کہا جاتا ہے: "افلح"، "کامیاب ہوگیا"۔ یعنی اس نے مشکلات سے سامنا کیا، اس کے سامنے رکاوٹیں آئیں تو اس نے محنت و کوشش کی اور رکاوٹوں اور مشکلات سے رہائی پا کر کامیاب ہوگیا، ایسے آدمی کو کہا جاتا ہے: "افلح"۔ لہذا جو آدمی ایک ہی جگہ پر بیٹھا ہے اسے "افلح" نہیں کہا جاتا۔
مشکلات اور ہلاکتوں کی جگہوں سے گزر جانا اور کامیاب ہونا، ہر انسان کا فطری تقاضا ہے، یہ ذاتی طور پر مطلوب ہے، فلاح پانے کا مقصد نہیں ہے، بلکہ فلاح پانا خود مقصد ہے، اسی لیے قرآن کریم نے کہیں بھی ایسا نہیں فرمایا: "افلحوا لعلّکم کذا"، فلاح پاؤ تا کہ فلاں مقصد تک پہنچ جاؤ"، بلکہ کچھ کام بتائے ہیں کہ یہ کام کرنے کا نتیجہ فلاح ہے۔
۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[اصل مطالب ماخوذ از: نشریہ معرفت، ج۱۰۷، ص۳، اخلاق و عرفان اسلامی، استاد محمد تقی مصباح یزدی]
Add new comment