سیپارۂ رحمان:معارف اجزائے قرآن: اکیسویں پارے کا مختصر جائزہ

Mon, 05/27/2019 - 22:22

ماہ رمضان ، ماہ نزول قرآن ہے، روزے بھی رکھیئے ! اور اپنی زبانوں کو تلا وت سے، کانوں کو سماعت سے اور دلوں کو قرآن کریم کے معانی اور مطالب میں غور و تدبر سے معطر اور منور بھی کیجئے ! وہ خوش نصیب انسان جو بندوں کے نام ، اللہ کے پیغام اور اسکے کلام کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا چاہتے ہیں ، ان کے لئے ہر روز تلاوت کیے جانے والے ایک پارہ کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے۔اور یہ اس سلسلے کے اکیسویں پارے کا خلاصہ ہے، کیا عجب کہ یہ خلا صہ ہی تفصیل کے ساتھ قرآن کریم کے مطالعہ اور اس کے مشمولات کے ذریعہ عمل پر آمادہ کر دے ۔

سیپارۂ رحمان:معارف اجزائے قرآن: اکیسویں پارے کا مختصر جائزہ

 وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ ۖ  ۔۔۔۔۔۔﴿٤٦﴾ سورة العنكبوت:جدالِ احسن میں ظالمین کا استثناء دليل ہے کہ جہاں شرافت اور نرمی میں مخالف کے غرور کا اندیشہ پیدا ہو جائے وہاں متکبیر کے ساتھ تکبر ہی عبادت ہوتا ہے اور نرمی کا برتاوؤاپنی کمزوری کی علامت بن جاتا ہے۔ 
 وَكَأَيِّن مِّن دَابَّةٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَا اللَّـهُ يَرْزُقُهَا وَإِيَّاكُمْ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ﴿٦٠﴾ سورة العنكبوت:اس روئے زمین پر کتنی مخلوقات ایسی پائی جاتی ہیں جو اپنا رزق فراہم کرنے کے قابل نہیں ہیں اور اپنا بوجھ بھی خودنہیں اٹھا سکتی ہیں؛ دوسروں کا کیا ذکر ہے خود انسان ہی جب تک شکم مادر یاا آغوش مادر میں رہتا ہے تورزق کا بار اٹھانے کے قابل نہیں ہوتا ہے اور نہ اس کا کوئی انتظام کر سکتا ہے، لیکن اس کے باوجود پروردگار عالم اسے رزق عطا کرتا ہے اور کسی نہ کسی صورت سے اس تک پہنچا دیتا ہے، ایسی صورت میں اتنے واضح تجربہ کے بعد انسان دشمنوں سے مرعوب ہو جائے کہ وہ معاشی نا کہ بندی کر دیں گے یا تبلیغ دین ترک کر دے کہ معیشت خطرہ میں پڑ جائے گی یا احکام الہیہ بیان نہ کرے کہ بانیان مجلس دوبارہ نہ بلائیں گے تو یہ ایمان کی ایسی کمزوری ہے جو انسان کو جانوروں سے بدتر بنا دیتی ہے کہ جانور صبح سویرے صحرا کی طرف اس اعتماد کے ساتھ نکل جاتا ہے کہ جس نے پیدا کیا ہے وہ رزق ضرور فراہم کرے گا اور انسان رازق حقیقی کو چھوڑ کر بندروں کی خوشامد کرتا ہے اور انہیں کو رازق العبادتصور کر لیتا ہے۔ 
وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ﴿٢١﴾ سورة الروم: آیت کریمہ نے اسلام کے پورے فسلفہ ازدواج کو واضح کر دیا ہے کہ اولاً تو اس کی بنیاد سکون زندگی ہے ، اس لئے ہر ایک کا جوڑا اسی کی نوع سے قرار دیا گیا ہے ورنہ انسانی زندگی وحشت کا شکار ہو جاتی اور اس کا گھر وحشت کدہ بن جاتا۔ دوسری طرف خدا نے دونوں کے درمیان مودّت اور رحمت کا سلسلہ قائم کر دیا ہے جو اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ عقد میں کوئی ایسی بات نہیں ہونی چاہیے جو مودّت و رحمت کے منافی ہو اور ظاہر ہے کہ اگر عقد کی بنیاد مال یا جمال پر ہو گی تو مال کے ختم ہو جائے اور جمال کے ڈھل جانے کے بعد مودّت کا خاتمہ ہو جائے گا اور اس طرح فریقین کے اخلاق اور  کردار میں نقص ہوگا تو رحمت کا ماحول قائم نہ رہ سکے گا، لہذا ضرورت ہے کہ عقد کی بنیا دعقیدہ اور ایمان کو بنایا جائے اور برتاؤبھی قانون اسلام کی روشنی میں کیا جائے تا کہ نہ مودّت میں فرق آ سکے اور نہ رحمت کا خاتمہ ہو سکے۔ جنسی روابط اور اولاد پیدا کرنا ایک ثانوی مسئلہ ہے، بنیادی طور پر عورت اور مرد ایک دوسرے کی زندگی کی ضرورت ہیں اور انہیں ایسا جامع الشرائط ہونا چاہیے جو سکون ، مودّت اور رحمت کیلئے مناسب ہو اور نظام خانوادگی تباہ و برباد نہ ہونے پائے۔ 
وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِندَ اللَّـهِ ۖ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّـهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ ﴿٣٩﴾ سورة الروم: معاشیات کی دنیا میں سب سے بڑی مصیبت کا نام ہے سود، سود وہ جال ہے جس میں غریوں کو گرفتار کیا جاتا ہے، سود وہ فریب ہے جس سے قوموں کو کاہل بنایا جاتا ہے، سود وہ حربہ ہے جس سے قوموں کی صلاحیتوں کو ضائع اور برباد کیا جاتا ہے، اور وہ راستہ ہے جس سے قوموں کا استحصال کیا جاتا ہے۔ سود کے بارے میں ظاہری تصور یہ ہے کہ اس سے مال میں اضافہ ہو جاتا ہے حالانکہ بے برکت اضافہ کبھی اضافہ کہے جانے کے قابل نہیں ہوتا ہے،اضافہ زکوٰۃ کے ذریہ ہوتا ہے جس میں بظاہر مال ہاتھ سے نکل جاتا ہے لیکن واقعاً اس میں برکت ہو جاتی ہے۔ برکت کا پہچاننا بھی ہر انسان کے بس کا کام نہیں ہے، شیطان اس نکتہ کی طرف متوجہ ہونے کا موقع ہی نہیں دیتا ہے کہ زکوٰۃ وصدقات سے مال میں برکت پیدا ہو جاتی ہے۔ ایک انسان حلال وحرام کو ایک کر کے با بخل و کنجوسی سے کام لے کر ایک لاکھ روپیہ اکٹھا کر لیتا ہے اور اس کے بعد کسی مہلک بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اپنے طرز عمل اور بخل کی تعریف کرتا ہے کہ ہم نے یہ سرمایہ نہ جمع کیا ہوتا تو آج کیا ہوتا اور یہ بھول جاتا ہے کہ اگر اس نے اس طرح کا سرمایہ نہ جمع کیا ہوتا تو شاید خدا اس کے نکلنے کا انتظام بھی نہ کرتا اور شائد یہ بیماری ہی قریب نہ آتی لیکن انسان کو اس اسلامی فکر کی تو فیق کہاں حاصل ہوتی ہے؛ وہ تو بالکل بندهٔ دنیا ہو کر رہ گیا ہےاور اسی بندگی میں مست ومگن ہے۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 0 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 36