سیپارۂ رحمان:معارف اجزائے قرآن: اٹھارھویں پارے کا مختصر جائزہ

Fri, 05/24/2019 - 15:17

ماہ رمضان ، ماہ نزول قرآن ہے، روزے بھی رکھیئے ! اور اپنی زبانوں کو تلا وت سے، کانوں کو سماعت سے اور دلوں کو قرآن کریم کے معانی اور مطالب میں غور و تدبر سے معطر اور منور بھی کیجئے ! وہ خوش نصیب انسان جو بندوں کے نام ، اللہ کے پیغام اور اسکے کلام کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا چاہتے ہیں ، ان کے لئے ہر روز تلاوت کیے جانے والے ایک پارہ کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے۔اور یہ اس سلسلے کے اٹھارھویں پارے کا خلاصہ ہے، کیا عجب کہ یہ خلا صہ ہی تفصیل کے ساتھ قرآن کریم کے مطالعہ اور اس کے مشمولات کے ذریعہ عمل پر آمادہ کر دے ۔

سیپارۂ رحمان:معارف اجزائے قرآن: اٹھارھویں پارے کا مختصر جائزہ

سورة المؤمنون: یہ سورہ مکی ہے اور حکم زکوٰۃ مدینہ میں نازل ہوا ہے لہذا اس سورہ میں زکوٰة سے مراد زکوۃ واجب نہیں ہے بلکہ کار خیر ہے جسے زکوٰة مستحب سے تعبیر کیا جاسکتا ہے، اس سورہ کا ہر جمعہ کے دن تلاوت کرنے والا فردوس اعلیٰ کا استحقاق پیدا کر لیتا ہے۔
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ﴿١﴾ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ ﴿٢﴾ سورة المؤمنون: ان آیات مبارکہ نے یہ صاف واضح کر دیا ہے کہ مسلمان اور مؤمن ہونے کیلئے عقیدہ کافی ہے لیکن کامیابی اور نجات حاصل کرنے کیلئے مختلف قسم کی ذمہ داریوں کا ادا کرنا بھی ضروری ہے اور وہ ذمہ داریاں یہ ہیں کہ خدا کی بارگاہ میں خضوع وخشوع ہو، بندوں کیلئے مال زکوٰة ادا کیا جائے، اخلاقی اعتبار سے لغو بات سے پرہیز کیا جائے،عفت کے اعتبار سے ناجائز ذرائع سے شہوت کی تسکین کا سامان نہ کیا جائے، سارے ہی معاملات میں امانت اور عہد کا خیال رکھا جائے، بندگی کے استحکام کیلئے نماز کے اوقات کی پابندی کی جائے، ان شرائط کے بغیر نجات کا کوئی امکان نہیں ہے۔ بعض روایات میں وارد ہوا ہے کہ حضرت علؑی نے ولادت کے بعد سب سے پہلے انہیں آیات کی تلاوت کی تھی اور پیغمبر اسلام(ص) نے سند دی تھی کہ یہ بات تمہارے ہی ذریعے حاصل ہوئی ہے، گویا محبت اہلبیتؑ انسان کو انہیں ذمہ داریوں پر عمل کرنے کی دعوت دیتی ہے اور یہی ذمہ داریاں ہیں جو انسان کو منزل نجات تک لے جاتی ہیں۔
فَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَوْمِهِ مَا هَـٰذَا إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُرِيدُ أَن يَتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ وَلَوْ شَاءَ اللَّـهُ لَأَنزَلَ مَلَائِكَةً مَّا سَمِعْنَا بِهَـٰذَا فِي آبَائِنَا الْأَوَّلِينَ ﴿٢٤﴾ سورة المؤمنون: ہر دور میں اشراف قوم کو یہی پریشانی رہتی ہے کہ اگر دوسرے شخص کی عظمت بیان کی گئی تو ہماری ریاست کا کیا انجام ہوگا ، خود ہمارے دور میں بھی دنیا کی تمام بڑی طاقتیں اسی ایک تصور سے پریشان رہتی ہیں کہ علماء دین کی حیثیت کا اندازہ لگا لیا گیا تو ہم جیسے شرابیوں اور کبابیوں کا پرسان حال کون ہوگا۔
وَقَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِهِ الَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِلِقَاءِ الْآخِرَةِ وَأَتْرَفْنَاهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا مَا هَـٰذَا إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يَأْكُلُ مِمَّا تَأْكُلُونَ مِنْهُ وَيَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُونَ ﴿٣٣﴾ سورة المؤمنون: انسان عجیب وغریب شخصیت کا مالک ہے کہ جب دولت اور سامان عشرت نہیں ملتا ہے تو دعا کرتا ہے اور فریاد کرتا ہے اور جب سامان عشرت مل جاتا ہے تو سب سے پہلے اسے خدا کی مخالفت کے ذریعہ کے طور پر استعمال کرتا ہے اور اپنے کو دنیا میں مشغول رکھنے کیلئے خیال آخرت کو ذہن سے یکسر نکال دینا چاہتا ہے اگر چہ یہ خیال ہرآن اس کے ذہن کو ٹہو کے دیتا رہتا ہے اور اس کے ضمیر کو کسی طرف سے بھی مطمئن نہیں ہونے دیتا ہے لیکن پھر بھی وہ اپنی بات کو بالا رکھنے کیلئے اس کی مخالفت کرتا ہے تا کہ کم از کم قوم اس کی طرف متوجہ نہ ہونے پائے ورنہ ہماری حیثیت اور شخصیت کا جنازہ نکل جائے گا اور ہماری کوئی قدر و قیمت نہ رہ جائے گی۔
يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا ۖإِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ ﴿٥١﴾ سورة المؤمنون: اسلام کسی مقام پربھی کھانے پینے اور عیش و آرام کرنے سے منع نہیں کرتا ہے۔ اس کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ انسان پاکیزہ غذا کھائے اور کھا کر سو نہ جائے بلکہ عمل صالح کرتا رہے تا کہ غذا مقصد حیات نہ بننے پائے اور اس کی حیثیت ایک وسیلۂ عمل ہی کی رہے جیسا کہ سرکار دو عالم (ص)کے حالات میں نقل کیا گیا ہے کہ آپ اپنے اصحاب کی اچھی غذاؤں سے انکار نہیں فرماتے تھے بلکہ انہیں نوش فرما لیتے تھے اور پسندیدگی کا اظہار فرماتے تھے اور آپ کا منشا یہ تھا کہ قوم میں تصوف اور رہبانیت کو رواج نہ ملنے پائے ورنہ اسلام تباہ و برباد ہو جائے گا، اسلام مسائل حیات کو حل کرنے اور مشکلات زندگی سے جہاد کرنے آیا ہے، وہ میدان حیات سے فرار کی تعلیم دینے کیلئے نہیں آیا ہے، اور جو لوگ اس قسم کی تعلیم دیتے ہیں اور پھٹے لباس یا خراب غذا ہی کو مذہب یا تقدس کا معیار بنانے ہوئے ہیں وہ درحقیقت روح مذہب سے دور اور نظام اسلام کی بربادی کا ذریعہ ہیں۔ البتہ اسلام ذمہ داران نذہب کو ضرور حکم دیتا ہے کہ وہ عوام کی زندگی کا خیال رکھیں اور اس سے بلند نہ ہوں تا کہ اس طرح عوام کے قلوب کو تسکین ملتی رہے اور وہ دل شکستہ نہ ہوں ، لیکن یہ رہبانیت کے علاوہ ایک دوسرا مسئلہ ہے جس کا تصوف اور ترک دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسکے علاوہ یہ ایک اشارہ ہے کہ عمل خیر کا جذبہ پاکیزہ غذا سے ہی پیدا ہوتا ہے اگر کسی انسان کی غذا پاکیزہ نہیں ہے اور اس کے رگ و پئے میں نجاست و خباثت سرایت کرگئی ہے تو کہیں نہ کہیں اس کا اثر ضرور ہوگا، حرام تنخواہ کھانے والے ،حرام کاروبار  کو اسی لیے نہیں ترک کرپاتے ہیں کہ مال حرام نے قبول حق کی صلاحیت کو سلب کرلیا ہے اور اب وہ راستے پر آنے والے نہیں ہیں۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 2 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 88