ماہ رمضان ، ماہ نزول قرآن ہے، روزے بھی رکھیئے ! اور اپنی زبانوں کو تلا وت سے، کانوں کو سماعت سے اور دلوں کو قرآن کریم کے معانی اور مطالب میں غور و تدبر سے معطر اور منور بھی کیجئے ! وہ خوش نصیب انسان جو بندوں کے نام ، اللہ کے پیغام اور اسکے کلام کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا چاہتے ہیں ، ان کے لئے ہر روز تلاوت کیے جانے والے ایک پارہ کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے۔اور یہ اس سلسلے کے انیسویں پارے کا خلاصہ ہے، کیا عجب کہ یہ خلا صہ ہی تفصیل کے ساتھ قرآن کریم کے مطالعہ اور اس کے مشمولات کے ذریعہ عمل پر آمادہ کر دے ۔
يَا وَيْلَتَىٰ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا﴿٢٨﴾سورة الفرقان:انسان دنیا میں دوست احباب پا کر روز آخرت سے بالکل غافل ہو جاتا ہے اور مذہب کے مقدسات اور تعلیمات کا بھی نداق اڑانے لگتا ہے، وہ یہ بھول جاتا ہے کہ قیامت کا دن بڑا اندوہناک اور ہولناک دن ہو گا، اس دن کوئی دوست کام آنے والا نہ ہو گا اور ہر ظالم غصے سے اپنے ہاتھوں کو کاٹے گا اور کہے گا کہ اے کاش میں نے فلاں شخص کو اپنا دوست نہ بنایا ہوتا، ایک مسلمان کا فرض ہے کہ دوستی کرنے سے پہلے اسکے انجام پر نظر کر لے اور انہیں افراد سے محبت کرے جو روزمحشر کام آنے والے ہیں اور ان کے ساتھ نہ جائے جن کی رفاقت میں حسرت و ندامت کے علاوہ کچھ ہاتھ آنے والا نہیں ہے۔
وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَـٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا ﴿٣٠﴾ سورة الفرقان: مهجور بنا لینے کے معنی تلاوت نہ کرنے سے نہیں ہیں کہ انسان تلاوت اور حفظ کر کے مطمئن ہو جائے کہ ہم نے قرآن کا حق ادا کر دیا ہے اور نبی کی فریاد کے دائرہ سے باہر نکل گئے ہیں بلکہ مهجور بنا لینے کے معنی زندگی کے تمام شعبوں میں نظر انداز کر دینے کے ہیں لہذا صبح و شام تلاوت کرنے کے بعد بھی زندگی کے مسائل میں اسے سند اور حکم نہ بنایا جائے تو وہ نظر انداز کر دینے ہی کے مترادف ہے۔
تَبَارَكَ الَّذِي جَعَلَ فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَجَعَلَ فِيهَا سِرَاجًا وَقَمَرًا مُّنِيرًا ﴿٦١﴾ سورة الفرقان: اللہ نے آفتاب کو چراغ سے تعبیر کیا ہے اور ماہتاب کو منیر قرار دیا ہے جس کے بارے میں بعض علماء کا خیال ہے کہ نور انعکاسی روشنی کا نام ہے اور چراغ میں اپنی روشنی ہوتی ہے اور اسی لئے آفتاب کو چراغ اور ضوء سے تعبیر ہے کیا جاتا ہے اور چاند کو نور اور منیر سے لیکن اس مقام پر ایک ادبی نکتہ یہ بھی ہے کہ قدرت نے آفتاب کو سراج قرار دیا ہے اور ماہتاب کو منیر اور اپنے حبیب(ص) کو سراج منیر قرار دیا ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ سرکار دوعالم(ص) کی ذات میں آفتاب اور ماہتاب دونوں کے انوار کی جامعیت پائی جاتی ہے۔
وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا ﴿٧٤﴾ سورة الفرقان: انسان مؤمن کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ وہ قوم کا قائد اور پیشوا بننے سے پہلے اس بات کی فکر کرتا ہے کہ اس کی زوجہ اور اولاد اس کے نقش قدم پر چلے، احکام الہی کی اطاعت کرے اورصحیح راستہ پر چلے تا کہ اس کے لیے خنکئ چشم کا باعث بنی رہے۔
قَالَ أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينَا وَلِيدًا وَلَبِثْتَ فِينَا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ ﴿١٨﴾ سورة الشعراء: فرعون کے ان کلمات نے واضح کر دیا کہ کفر اسلام والوں کی تربیت کرتا ہے تو اختلافِ عقائد کی صورت میں احسان ضرور جتاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بعثت کے موقع پر جناب ابوطالبؑ کا اعتراض نہ کرنا اور احسان جتانے کے بجائے حمایت و نصرت کا وعدہ کرنا ایمان ِ کامل کی بہترین دلیل ہے اور اس امر کا اعلان ہے کہ ایک مسلمان نے بانیٔ اسلام کو پالا ہے اور ایک مومن کامل نے روح ایمان کی پرورش کی ہے۔
فرعون جیسے سیاستدان ہر دور میں پائے جاتے ہیں، جن کا کام ہوتا ہے آگ لگانا اور پھر بالٹی لے کر دوڑنا تا کہ لوگ اس نکتہ کی طرف سے غافل ہو جائیں کہ اس شخص نے ہی آگ لگائی تھی اور لوگ فقط یہ دیکھنے لگیں کہ اگر یہ شخص نہ ہوتا تو آگ کس طرح بجھتی حالانکہ کہ صحیح صورت حال یہ ہے کہ یہ شخص نہ ہوتا تو آگ ہی نہ لگتی۔
Add new comment