سیپارۂ رحمان:معارف اجزائے قرآن: بیسویں پارے کا مختصر جائزہ

Sun, 05/26/2019 - 10:27

ماہ رمضان ، ماہ نزول قرآن ہے، روزے بھی رکھیئے ! اور اپنی زبانوں کو تلا وت سے، کانوں کو سماعت سے اور دلوں کو قرآن کریم کے معانی اور مطالب میں غور و تدبر سے معطر اور منور بھی کیجئے ! وہ خوش نصیب انسان جو بندوں کے نام ، اللہ کے پیغام اور اسکے کلام کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا چاہتے ہیں ، ان کے لئے ہر روز تلاوت کیے جانے والے ایک پارہ کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے۔اور یہ اس سلسلے کے بیسویں پارے کا خلاصہ ہے، کیا عجب کہ یہ خلا صہ ہی تفصیل کے ساتھ قرآن کریم کے مطالعہ اور اس کے مشمولات کے ذریعہ عمل پر آمادہ کر دے ۔

سیپارۂ رحمان:معارف اجزائے قرآن: بیسویں پارے کا مختصر جائزہ

َإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِّنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ ﴿٨٢﴾ سورة النمل:دابة الارض ایک باشعور انسان ہے جس کی تفسیر بعض روایات میں امیر المومنین ؑسے اور بعض میں امام مہدی (عجل)سے کی گئی ہے۔ مختلف اوقات میں معصومیؑن سے یہ پوچھا گیا ہے کہ آخر وہ کونسی مخلوق ہے جس کو اس کام کیلئے معین کیا گیا ہے تو فرمایا کہ وہ صاحب لحیہ ہے ۔۔۔۔۔۔جس سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ باطل سے بیزاری کا اعلان کوئی ڈاڑھی والا ہی کر سکتا ہے، ڈاڑھی منڈوں کو یہ شرف بھی حاصل نہیں ہوسکتا ہے اور نہ ان کے اعلان کا کوئی اعتبار ہے۔ 
وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ﴿٥﴾ سورة القصص:مستضعف اگرچہ علمی، ادبی، فکری، اقتصادی اور سیاسی ہر اعتبار سے ہوسکتا ہے لیکن عام طور سے اس کا اطلاق سیاسی اور اخلاقی کمزوری پر ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں مستضعفین کا ذکر پانچ مقامات پر ہوا ہے اور ان سے مراد وہ صاحبان ایمان ہیں جنہیں ہر اعتبار سے پامال کردیا گیا ہے۔ 
وَقَالَتِ امْرَأَتُ فِرْعَوْنَ قُرَّتُ عَيْنٍ لِّي وَلَكَ ۖ لَا تَقْتُلُوهُ عَسَىٰ أَن يَنفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ ﴿٩﴾ سورة القصص: زوجہ فرعون کا نام آ سیہ بنت مزاحم تھا اور انہیں قدرت نے اسی دن کیلئے فرعون کے قصر میں رکھا تھا ، انہوں نے ایک نبئ خدا کی زندگی کا تحفظ کر لیا تو روایت میں وارد ہوا ہے کہ دنیا کی بہترین عورتیں چار ہیں: مریم بنت عمران، آسیہ بنت مزاحم ، خدیجہ بنت خويلد اور  فاطمہ بنت محمدؐ۔اور سب کا مشترک کردار یہ ہے کہ سب نے اپنے اپنے دور میں نبئ خدا کی حیات کا تحفظ کیا ہے؛ جناب مریم نے جناب عیسی علیہ السلام کو بچایا ہے، جناب آسیہ نے حضرت موسی علیہ السلام کا تحفظ کیا ہے، حضرت خدیجہ نے پیغمبر اسلام کو سہارا دیا ہے اور جناب فاطمہ نے اپنے باپ کے لئے ماں کی شفقت و محبت کا انتظام کر کے ان کا حوصلہ بڑھایا ہے، یہاں تک کہ روایات کی بنا پر سرکار دو عالمؐ انہیں اپنے باپ کی ماں کہہ کر یاد کیا کرتے تھے۔ تحفظ رسالت ایک ایسا عظیم کارنامہ ہے جس کی مدح و ثناء آیات قرآن اور ارشادات معصومینؑ میں بار بار کی گئی ہے اب حیرت ہے ان احسان فراموش مسلمانوں پر جو اپنے نبیؐ کے محافظ ِحقیقی حضرت ابو طالب کے دشمن ہیں اور ان کے ایمان کا دیدہ و دانسته انکار کر رہے ہیں۔ 
……أَنَّ وَعْدَ اللَّـهِ حَقٌّ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿١٣﴾ سورة القصص: بیشک وعدهٔ نصرت الہی یہی ہے اور وہ غیب سے اس کا سامان فراہم کرنے والا ہے اور موسی علیہ السلام کو اس بات کا مکمل اعتبار تھا لیکن افسویں کہ عہد حاضر کے مسلمانوں کو یہ اعتبار نہیں ہے اور وہ ہرفرعون وقت سے خوفزدہ ہیں اور اس کے خلاف آواز اٹھانے سے لرز رہے ہیں بلکہ ان کے خلاف آواز اٹھانے والے کی آواز کو دبا دینے ہی کوقوم وملت کی خدمت تصور کر رہے ہیں ۔ خدا ان سب کو نیک ہدایت دے۔ 
﴿١٥﴾ سورة القصص:جناب موسیٰ علیہ السلام نے ایک اسرائیلی اور ایک قبطی کو لڑتے ہوئے دیکھا اور اسرائیل کی مدد کر دی اس لئے کہ قبطیوں کا ظلم عام تھا اور فرعون کی قوم ہونے کی بنا پر وہ مسلسل اسرائیلیوں کو ستا رہے تھے۔قرآن مجید نے اولاً اسرائیلی کو شیعہ کہا ہے اور پھر قبطی کو دشمن قرار دیا جس سے اس قرآنی اصطلاح کا اندازہ ہوتا ہے کہ نبی کے چاہنے والے اور مظلوم کو شیعہ کہا جاتا ہے اور اس کے مد مقابل کو دشمن کہا جاتا ہے۔دوسری طرف جب اسی اسرائیلی نے دوبارہ فریاد کی تو جناب موسیٰ علیہ السلام نے اسے بھی گمراہ قرار دیدیا کہ اس نے حالات کی رعایت کو نظر انداز کر دیا ہے اور روزانہ لڑنے کیلئے تیار رہتا ہے جب کہ قبطیوں کے مظالم سے باخبر ہے اور اس کا واضح ترین مطلب یہ ہے کہ جناب موسیٰ علیہ السلام کی نگاہ میں تقیہ نہ کرتا کھلی ہوئی گمراہی ہے، انسان کو حالات کا جائزہ لے کر قدم اٹھانا چاہیے ادھر قبطی نے جناب موی علیہ السلام پر ظلم کا الزام لگا دیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ قبطی غیر شیعہ ہونے کی بنا پر نبی کی عصمت و عدالت کا قائل نہیں تھا۔جناب موسی علیہ السلام کو قوم کی سازش سے باخبر کرنے والے کو سورۂ غافر میں رجل مومن کہا گیا ہے جو علامت ہے کہ ایمان کا چھپانا مصلحت کے وقت خود بھی ایمان کی بہترین دلیل ہے اور جناب موسیٰ علیہ السلام کا مصر سے نکل جانا اس بات کی دلیل ہے کہ تقیہ سیرت انبیاء ہے اور اس کی مخالفت سیرت فرعون و ہامان و شیطان ہے۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 1 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 106