ماہ رمضان ، ماہ نزول قرآن ہے، روزے بھی رکھیئے ! اور اپنی زبانوں کو تلا وت سے، کانوں کو سماعت سے اور دلوں کو قرآن کریم کے معانی اور مطالب میں غور و تدبر سے معطر اور منور بھی کیجئے ! وہ خوش نصیب انسان جو بندوں کے نام ، اللہ کے پیغام اور اسکے کلام کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا چاہتے ہیں ، ان کے لئے ہر روز تلاوت کیے جانے والے ایک پارہ کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے۔اور یہ اس سلسلے کے سولھویں پارے کا خلاصہ ہے، کیا عجب کہ یہ خلا صہ ہی تفصیل کے ساتھ قرآن کریم کے مطالعہ اور اس کے مشمولات کے ذریعہ عمل پر آمادہ کر دے ۔
۔۔۔۔۔فَأَبَوْا أَن يُضَيِّفُوهُمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ﴿٧٧﴾سورة الكهف: بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ کھانا دینے کے بجائے ضیافت سے انکار کا ذکر کر کے یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ مہمان نوازی سے انکارکردینا انتہائی ذلیل عمل ہے۔
الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا ﴿١٠٤﴾ سورة الكهف: آیت نے صاف واضح کر دیا ہے کہ عمل خیر کا معیار نہ اپنی پسند ہے اور نہ اپنے چاہنے والوں کی پسند؛عمل خیر کا معیارصرف حکم الہی ہے عمل اس کے مطابق ہے تو عمل خیر ہے ورنہ وقت کی بربادی اور صلاحیت کی تباہی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
قُل لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَن تَنفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا ﴿١٠٩﴾ سورة الكهف: كلمات الہیہ صرف الفاظ وعبارات کا نام نہیں ہے بلکہ ہر ارادۂ الٰہی ایک کلمہ ہے اور ہر موجود جو اپنے وجود سے اپنے خالق کی عظمت کی نشاندہی کر کے ایک کلمہ ہے اور اس طرح کلمات الٰہیہ کا احصاءممکن نہیں ہے۔
قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ ۖ فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا ﴿١١٠﴾ سورة الكهف: بشریت کیلئے وحی کی قید اس امر کی علامت ہے کہ رسول کو ہر جہت سے اپنا جیساسمجھنا ان سے یکسر ناواقفیت کی علامت ہے؛ ان کی بشریت میں یقینا یہ امتیاز ہوتا ہے کہ انہیں منزل وحی بنا دیا جائے اور دوسرے افراد کو ہر حال یہ شرف نہیں دیا جاتا ہے۔
سورة مريم: اس سورہ مبارکہ میں جناب مریم کے تذکرہ سے پہلے جناب زکریاؑ کے یہاں ولادت کا ذکر کیا گیا ہے تا کہ دنیا کو یہ اندازہ ہو جائےکہ خدا نظام تخلیق میں عام حالات اور اسباب کا پابند نہیں ہے۔ وہ ۹۹ سال کی عمر میں جناب زکریا کے یہاں اولاد پیدا کر سکتا ہے جب کہ ان کی زوجہ بھی بوڑھی اور بانجھ تھیں تو بغیر شوہر کے جناب مریم کے یہاں بھی فرزند پیدا کر سکتا ہے۔اور اسی لئے جناب زکریا کی زبان سے یہ بھی کہلوا دیا کہ یہ بات بہت مشکل ہے کہ ایک بوڑھے مرد کے یہاں بانجھ عورت سے بچہ پیدا ہو جائے اور اس کا جواب بھی دے دیا کہ خدا کیلئے کوئی مشکل نہیں ہے؛ اس وقت کم از کم بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت کا ذریہ تو موجود ہے وہ تو بالکل عدم سے وجود میں لانے والا |ہے تو اسکے لئے یہ تخلیق کون سا مشکل کام ہے۔جناب زکریا ؑکی دعا نے یہ بھی واضح کر دیا کہ انبیاء کرام مادی وراثت کیلئے بھی پسندیده فرزند چاہتے ہیں تا کہ مال برباد نہ ہونے پائے صاحبان ایمان کو بھی یہی دعا کرنی چاہیے اور ایسی ہی تربیت دینی چاہیے کہ وارث مال کو تاہ و برباد نہ کرنے پائے۔
وَهُزِّي إِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَيْكِ رُطَبًا جَنِيًّا ﴿٢٥﴾ سورة مريم:پروردگار نے مریم کے لئے از غیب بلا فصل کے میوے پیدا کر دیئے لیکن یہ حکم دیا کہ درخت کو ہلا ؤ تو پھل گریں گے تا کہ اولاد آدم کے لئے یہ نصیحت رہے کہ رزق دینا خدا کا کام ہے لیکن محنت کرنا بہر حال ایک ضروری امر ہے۔
قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّـهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا ﴿٣٠﴾ سورة مريم: یہ ایک عجیب وغریب بات ہے کہ نبئ خدا اپنے کو بندهٔ خدا کہہ رہا ہے اور اس کے ماننے والے اسے فرزند خدا کہہ رہے ہیں ؛اور یہ ایک اشارہ ہے کہ یہ رسم دور قدیم سے چلی آرہی ہے کہ کسی شخصیت کو ماننے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کی بات کو بھی مان لیا جائے بلکہ اکثر ماننے والے شخصیت پرست ہوتے ہیں اور بات کا اتباع نہیں کرتے ہیں فرق صرف یہ ہے کہ پہلے یہ کام عیسائی کیا کرتے تھے اور اب یہی کام مسلمان اور مومنین کر رہے ہیں کہ ایمان اور عقیدت کے باوجود احکام پر عمل نہیں کرتے اور اپنے کو سب سے بڑا مانے والا تصور کرتے ہیں اور جو جس قدر ماننے والا کہا جا تا ہے وہ اس قدر بدعمل اور بے عمل بھی ہو جاتا ہے۔
لَّا يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْوًا إِلَّا سَلَامًا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۖ ﴿٦٢﴾ سورة مريم: آیت کا صاف اعلان ہے کہ جنت میں لغو آواز وں کا گذر بسر نہیں ہے، اب گانے بجانے کے شوقین افراد کو سوچنا چاہیے کہ وہ اپنے شوق کی تسکین کیلئے اپنا ٹھکانا کہاں بنائیں گے۔
Add new comment