خلاصہ: جس آدمی کا دل بہرا، گونگا، اور اندھا ہو وہ حق کو نہیں پہچان سکتا، وہ دنیا میں حق کی حقانیت اور باطل کے باطل ہونے کو نہیں سمجھ سکتا تو آخرت میں بھی اندھا ہوگا۔
جو دل ایمان کے نور سے خالی ہو اس میں ایسی بیماریاں ہیں جن کو قرآن کریم اندھاپن، بہرا پن اور گنگاپن کہتا ہے: "صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ"، "پس وہ ایسے بہرے، گونگے اور اندھے ہیں کہ اب (گمراہی سے راہِ ہدایت کی طرف) نہیں لوٹیں گے" [بقرہ، آیت ۱۸]۔
یعنی ان کے دل کا کان حق کو سننے سے بہرا ہے اور ان کی زبان حق بولنے سے گنگی ہے اور ان کی آنکھ حق کے دیکھنے سے اندھی ہے۔ ارشاد الٰہی ہے: "وَمَن كَانَ فِي هَـٰذِهِ أَعْمَىٰ فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَىٰ وَأَضَلُّ سَبِيلاً"، "اور جو کوئی اس دنیا میں اندھا بنا رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی ہوگا اور بڑا راہ گم کردہ ہوگا" [اسراء، آیت ۷۲]۔
اس آیت اور دیگر آیات سے معلوم ہوجاتا ہے کہ آخرت میں ظاہر باطن کی طرح ہوگا۔ لہذا جنہوں نے دنیا میں اللہ کی آیات کو دل کی آنکھ سے نہ دیکھا اور حق پر یقین نہ کیا اور اس سے دل نہ لگایا تو آخرت میں بھی اللہ کی نعمتوں کو نہیں دیکھیں گے، یعنی ان کی کوئی آنکھ ہی نہیں ہے کہ دیکھ سکیں اور جس نے حق کی بات کو دل کے کان سے نہ سنا اور اسے قبول نہ کیا تو کل جنت اور جنتیوں کے دلکش نغموں کو نہیں سنے گا۔
اور نیز ایمان سے خالی دلوں کو بیمار، مہر لگے ہوئے، تالے لگے ہوئے، زنگار لگے ہوئے کے طور پر ذکر کیا ہے اور ان کو حیوانوں کے برابر اور بدترین جاندار متعارف کرایا ہے۔
۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[اقتباس از کتاب قلب سلیم، آیت اللہ شہید عبدالحسین دستغیب شیرازی علیہ الرحمہ]
[ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب]
Add new comment