خلاصہ: جس طرح جسمانی امراض کے لئے مریض اس مرض کے ماہر طبیب سے ہی نسخہ لیتا ہے، اسی طرح دل کی بیماریوں کا علاج ہر کوئی نہیں کرسکتا، بلکہ صرف اللہ علاج کرسکتا ہے اور وہ ہستیاں جن کو اللہ تعالیٰ دل کا طبیب بنائے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جسمانی امراض ایسی چیز ہیں جن کو انسان حواسّ کے ذریعے ادراک کرسکتا ہے اور سمجھ سکتا ہے اور اس کی دوا جسے اللہ تعالیٰ نے اس مادّی عالَم میں رکھا ہے، کو کوشش اور تجربہ کے ذریعے حاصل کرسکتا ہے، لیکن خود دل کیونکہ عالَم غیب اور مادہ سے ماوراء عالَم سے ہے تو اس کی بیماریاں مادّی نہیں ہیں کہ عام آدمی سمجھ سکے یا اس کے دوا کا انکشاف کرسکے اور انسان کے پیچیدہ نفسانی نظام پر مکمل احاطہ لوگوں کی طاقت سے بالاتر ہے اور سوائے اس کے خالق کے جو وہ اللہ ہے جو غیب و حاضر کو جانتا ہے، کوئی نفسانی اسرار اور روحانی دواؤں سے آگاہ نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بعض انسانوں کو منتخب کیا اور انہیں ان اسرار سے مطلع فرمایا اور ان کو روحانی اطباء کے طور پر لوگوں کا راہنما قرار دیا اور ان کے سردار کو خاتم الانبیاء محمد ابن عبداللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) قرار دیا اور آنحضرتؐ کو لوگوں کی طرف بھیجنے سے مومنین پر احسان کیا اور سورہ آل عمران آیت ۱۶۴ میں فرمایا: "لَقَدْ مَنَّ اللَّـهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ"، "ایمان والوں پر اللہ نے بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاکیزہ کرتا اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے جب کہ اس سے پہلے یہ لوگ صریح گمراہی میں مبتلا تھے"۔
تزکیہ سے مراد وہی دلوں کی پاکیزگی ہے دل کی طرح طرح کی آلودگیوں سے۔ اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کی بعثت کا مقصد دلوں کو روشن کرنا ہے علم کے نور سے اور مختلف آلودگیوں سے پاک ہونا ہے اور انسانیت کے بافضیلت ملکات کا حامل ہونا ہے۔
۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[اقتباس از کتاب قلب سلیم، آیت اللہ شہید عبدالحسین دستغیب شیرازی علیہ الرحمہ]
[ترجمہ آیت از: مولانا شیخ محسن نجفی صاحب]
Add new comment