ماہ رمضان ، ماہ نزول قرآن ہے، روزے بھی رکھیئے ! اور اپنی زبانوں کو تلا وت سے، کانوں کو سماعت سے اور دلوں کو قرآن کریم کے معانی اور مطالب میں غور و تدبر سے معطر اور منور بھی کیجئے ! وہ خوش نصیب انسان جو بندوں کے نام ، اللہ کے پیغام اور اسکے کلام کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا چاہتے ہیں ، ان کے لئے ہر روز تلاوت کیے جانے والے ایک پارہ کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے۔اور یہ اس سلسلے کے پندرھویں پارے کا خلاصہ ہے، کیا عجب کہ یہ خلا صہ ہی تفصیل کے ساتھ قرآن کریم کے مطالعہ اور اس کے مشمولات کے ذریعہ عمل پر آمادہ کر دے ۔
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ﴿١﴾سورة الإسراء: ان آیات میں معراج پیغمبر(ص) کا تذکرہ کیا گیا ہے جس کے دو سفر تھے ایک سفر مکہ سے مسجد اقصیٰ تک تھا اور دوسرا مسجد اقصی ٰسے آسمانوں کی طرف تھا، بعض مفسرین نے پہلے سفر کو اسرا کہا ہے اور دوسرے کو معراج اور بعض نے دونوں کو معراج سے تعبیر کیا ہے۔ یہ معراج در حقیقت جسمانی طور پر واقع ہوئی تھی جس کی بہترین دلیل خود لفظ عبد ہے اور سبحان کے ذریہ مسئلہ کے قابل تعجب ہونے کا اظہار کیا گیا ہے اور خود سرکار دو عالم(ص) کا بھی بیان ہے کہ مجھے براق نامی سواری پر لے جایا گیا اور ظاہر ہے کہ یہ ساری باتیں جسمانی سفرہی میں ہوسکتی ہیں روحانی سفر میں نہیں۔ اور حضرت عائشہ کی طرف یہ نسبت کہ جسم رسول(ص) بستر پر تھا یہ صرف ایک افتراء ہے اس لئے کہ ان کی شادی ہجرت کے بعد ہوئی ہے اور معراج ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہے چاہے ۲۷ رجب کو ہو یا بروایتے ۷ اربیع الاول کو اور اس وقت ان کے گھر یا بستر میں ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں ہے۔ واضح رہے کہ مسجد اقصیٰ ایک محترم اور مقدس مقام پر ہے جسے قبیلہ یبوسیین نے آباد کیا تھا اور اس کا مرکز صہیون نامی پہاڑ تھا۔ (۲۵۰۰ ق م) میں سالم یبوسی نے اسے آباد کیا تھا اور اس کے بعد مسلمانوں نے اس علاقہ میں مسجدیں بنائیں۔ ابتدائے بعثت میں مکہ کی زندگی میں اور پھر مدینہ میں آ کر ۱۳ ماہ تک مسلمانوں نے اسی کی طرف نمازیں پڑھی تھیں۔ مسجد اقصی کی بے حرمتی مسلمانوں اور عیسائیوں کا مشترکہ مسئلہ ہے لیکن افسوس کہ ۱۹۹۷ء میں امریکہ اور برطانیہ کی سازش سے اس پر یہودیوں کا قبضہ ہو گیا اور اس میں رقص و رنگ کی محفلیں قائم ہو گئیں اور یہ علاقہ اسرائیلی حکومت میں شامل ہو کر مسلمانوں اور ان کے حکام کی بے غیرتی کا مرثیہ پڑھ رہا ہے۔
وَإِذَا أَرَدْنَا أَن نُّهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيرًا ﴿١٦﴾ سورة الإسراء: مترفین صرف مالداروں کا نام نہیں ہے بلکہ عیش پرستوں کا نام بھی ہےجیسے کہ دور حاضر کے بعض مسلمان بادشاہوں کا حال ہے۔ قرآن مجید میں مترفین کا ذکر آٹھ مقامات پر آیا ہے اور ہر جگہ مذمت کے ساتھ آیا ہے۔ مترفین کی وجہ سے سارے قریہ کی تباہی کا راز شاید یہ ہے کہ اہل قر یہ ان کو برداشت کرتے ہیں اور ان کے خلاف آواز نہیں بلند کرتے ہیں، ان کا احترام کرتے ہیں، انہیں ووٹ دیتے ہیں اور اس طرح سب ان کے شر یک ظلم اور پھر مستحق عذاب ہو جاتے ہیں، روایت میں وارد ہوا ہے کہ ’’حق کے بارے میں چپ رہنے والا گونگے شیطان کے مانند ہے، اور ظلم پر راضی ہو جانے والا خود بھی ظالم ہے‘‘۔
وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ﴿٢٣﴾ وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا ﴿٢٤﴾ سورة الإسراء: رسول اکرم(ص) کی خدمت میں ایک شخص اذن جہاد کے لئے حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ کیا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں اس نے کہا کہ بے شک؛ فرمایا جاؤ ان کی خدمت کرو کہ یہی جہاد ہے۔
Add new comment