ماہ رمضان ، ماہ نزول قرآن ہے، روزے بھی رکھیئے ! اور اپنی زبانوں کو تلا وت سے، کانوں کو سماعت سے اور دلوں کو قرآن کریم کے معانی اور مطالب میں غور و تدبر سے معطر اور منور بھی کیجئے ! وہ خوش نصیب انسان جو بندوں کے نام ، اللہ کے پیغام اور اسکے کلام کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا چاہتے ہیں ، ان کے لئے ہر روز تلاوت کیے جانے والے ایک پارہ کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے۔اور یہ اس سلسلے کے تیرھویں پارے کا خلاصہ ہے، کیا عجب کہ یہ خلا صہ ہی تفصیل کے ساتھ قرآن کریم کے مطالعہ اور اس کے مشمولات کے ذریعہ عمل پر آمادہ کر دے ۔
واضح رہے کہ قصہ حضرت یوسف کوئی داستان حسن و عشق نہیں ہے جیسا کہ بعض سادہ لوح افراد کا خیال ہے کہ اسے قرآن میں ہونا ہی نہیں چاہئے تھا اور یہ قرآن کی عظمت اور اس کے تقدس کے خلاف ہے۔ یہ عبرت خیز واقعہ ہے جس میں نمایاں طور پر حسب ذیل نکات پائے ہیں۔ (1) انسان کو دین و مذہب کے مقابلہ میں کسی خواہش کی طرف نہیں جھکنا چاہئے ۔ (۲) حق و صداقت اور تقوی کی راہ میں کسی بھی مصیبت کی کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہئے۔ (۳) مصائب کتنے ہی شدید کیوں نہ ہو جائیں رحمت خدا سے مایوس نہیں ہونا چاہے ۔ (۳) سخت ترین حالات میں بھی ظالموں کی خوشامدنہیں کرنی چاہئے ۔ (۵) مجرم شرمندہ ہو جائے تو اسے معاف کر دینا چاہئے اور اپنا احسان نہیں جتانا چاہئے وغیرہ ۔
وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي ۚ إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي ۚ إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٥٣﴾سورة يوسف: انسان کتنا ہی بلند کردار کیوں نہ ہوجائے اسے یہ احساسی رہنا چاہیے کہ یہ بلند کرداری رحمت پروردگار کا نتیجہ ہے۔
قَالَ اجْعَلْنِي عَلَىٰ خَزَائِنِ الْأَرْضِ ۖ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ ﴿٥٥﴾ سورة يوسف:یہ علامت ہے کہ انسان بوقت ضرورت اپنی تعریف آپ کرسکتا ہے، جناب یوسف نے یہ بھی کر دیا کہ حقوق بشر کے تحفظ کے لئے سب سے بڑا اہم عہدہ وزارت مالیات کا ہے، خصوصیت کے ساتھ قحط کے زمانے میں کہ اس دور میں حقوق کی بربادی کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ جناب یوسفؑ کے الفاظ نے وزارت مالیات کو وزارت خزانہ کا نام دے دیا تھا جو آج تک دنیا میں رائج ہے۔
يَا بَنِيَّ اذْهَبُوا فَتَحَسَّسُوا مِن يُوسُفَ وَأَخِيهِ وَلَا تَيْأَسُوا مِن رَّوْحِ اللَّـهِ ۖ إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِن رَّوْحِ اللَّـهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ ﴿٨٧﴾ سورة يوسف:
جناب یعقوبؑ کی نبوی تعلیمات میں سے ایک تعلیم یہ بھی ہے کہ انسان نه تنها رحمت خدا پر بھروسہ کر کے کام ترک کر دے اور نه تنها کام پر بھروسہ کر کے رحمت خدا سے مایوس ہو جائے بلکہ رحمت کا آسرا بھی رکھے اور محنت و مشقت بھی جاری رکھے اور اسی لئے آپ نے فرمایا کہ یوسفؑ کو تلاش بھی کرو اور رحمت خدا سے مایوس بھی نہ ہوکہ یہی شان مسلمان اور صاحب ایمان ہے۔
فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَيْهِ قَالُوا يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنَا وَأَهْلَنَا الضُّرُّ وَجِئْنَا بِبِضَاعَةٍ مُّزْجَاةٍ فَأَوْفِ لَنَا الْكَيْلَ وَتَصَدَّقْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّ اللَّـهَ يَجْزِي الْمُتَصَدِّقِينَ ﴿٨٨﴾ سورة يوسف: ظلم کا انجام کتنا برا ہوتا ہے اور ظالم کو دنیا میں کن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کی عبرت کا مرقع برادران یوسفؑ کی حالت ہے کہ کس طرح یوسفؑ کے سامنے فریاد کر رہے تھے، کیا کوئی تصور کر سکتا ہے کہ کل جن لوگوں نے نہایت غرور کے ساتھ کنویں میں ڈالا تھا وہ آج اس طرح گڑ گڑا کر صدقہ خیرات کا مطالبہ کریں گے لیکن قدرت کا انتقام بڑا شدید ہوتا ہے،یہ اور بات ہے کہ وہ ارحم الراحمین بھی ہے اور اعتراف گناہ پر معاف بھی کردیتا ہے۔
قَالَ لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ ۖ يَغْفِرُ اللَّـهُ لَكُمْ ۖ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ ﴿٩٢﴾ سورة يوسف: کوئی پیغمبر سا کلیجہ کہاں سے لے کر آئے گا کہ کل جناب یوسفؑ نے اپنے بھائیوں کو انتہائی فراخدلی سے معاف کر دیا تھا اور فتح مکہ کے موقع پر سرکار دو عالم (ص)نے فرمایا تھا کہ تم لوگ مجھ سے کیا توقع رکھتے ہو؟ ان لوگوں نے کہا کہ آپ ایک بردار کریم اور فرزند برادر کریم ہیں فرمایا اچھا جاؤ تم سب آزاد کئے جاتے ہو۔ اب تم سے کوئی محاسبہ نہیں کیا جائے گا۔ جیسے میرے بھائی یوسفؑ نے کہا تھا کہ : لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ۔۔۔۔۔۔۔۔!
وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سورة يوسف: واضح رہے کہ جناب یوسف کے سامنے جناب یعقوبؑ اور بھائیوں کا سجدہ صرف رب العالمین کا سجدهٔ شکر تھا اور یوسف ایک قبلے کی حیثیت رکھتے تھے جس کے ذریعہ ان کے احترام کا اظہار کیا جارہا تھا اور اسی اعتبار سے اسے سجدۂ تعظیمی کہا جاتا ہے ورنہ غیر خدا کو سجده کرنا بہر حال حرام ہے اور شرکِ عبادت کی حیثیت رکھتا ہے۔
Add new comment