ماہ رمضان ، ماہ نزول قرآن ہے، روزے بھی رکھیئے ! اور اپنی زبانوں کو تلا وت سے، کانوں کو سماعت سے اور دلوں کو قرآن کریم کے معانی اور مطالب میں غور و تدبر سے معطر اور منور بھی کیجئے ! وہ خوش نصیب انسان جو بندوں کے نام ، اللہ کے پیغام اور اسکے کلام کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا چاہتے ہیں ، ان کے لئے ہر روز تلاوت کیے جانے والے ایک پارہ کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے۔اور یہ اس سلسلے کے بارھویں پارے کا خلاصہ ہے، کیا عجب کہ یہ خلا صہ ہی تفصیل کے ساتھ قرآن کریم کے مطالعہ اور اس کے مشمولات کے ذریعہ عمل پر آمادہ کر دے ۔
وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّـهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا ۚ كُلٌّ فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ ﴿٦﴾ سورة هود: لفظ دابه، دبیب یعنی حرکت سے نکلا ہے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ رزق کی ضمانت حاصل کرنے کے لئے بھی حرکت کی ضرورت ہے چاہے وہ فطری اور طبیعی ہی کیوں نہ ہو - بعض حضرات نے مستقر سے دنیا کا ٹھکانا اور مستودع سے مرنے کے بعد سونپے جانے کی جگہ کو مراد لیا ہے اور بعض نے مستقر دنیا کا ٹھکانا اور مستودع دنیا میں آنے سے پہلے رحم مادر کو مراد لیا ہے جہاں انسان عارضی طور پر رہتا ہے اور یہی زیادہ مناسب بھی ہے اس لئے کہ تذکرہ رزق کا ہے اور رزق مرنے کے بعد قبر میں نہیں دیا جا تا ہے اور یہ رزق رحم مادر میں بھی ملتا ہے اور دنیا میں مخلوقات کے ٹھکانے پر بھی ملتا رہتا ہے۔ واضح رہے کہ رزق کی ضمانت کے معنی یہ ہرگز نہیں ہیں کہ انسان کام کرنا اور محنت کرنا ترک کردے۔ محنت بہرحال ایک فریضہ ہے جس سے غافل نہ ہونا چاہیے۔ رزق کی ضمانت اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ محنت ضائع نہ ہوگی اور اسی لئے شہدائے راہِ خدا سے مرنے کے بعد رزق کا وعدہ کیا گیا ہے کہ شہادت بے اثر اور بے فیض نہیں ہوسکتی ہے۔
مَن كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ ﴿١٥﴾ سورة هود: دنیا دار اسباب ہے۔ یہاں ہر کام اسباب کے تحت انجام پاتا ہے اور جو بھی ان اسباب کو اختیار کرے گا وہ نتائج ضرور حاصل کرلے گا لہذا اگر کسی نے دنیا داری کے اسباب فراہم کئے تو وہ نعمت خدا یہاں حاصل کرلے گا اور اگر کسی نے عمل آخرت انجام دیا تو وہ آخرت میں اپنا اجر حاصل کرے گا۔ خدا قانون اسباب کی بنا پرکسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا ہے۔ علاوہ اس کے کہ کوئی ایسی صورت پیدا ہو جائے جہاں تنبیہ کے لئے دنیا میں سزا دینا پڑ جائے تو وہاں بھی اسباب ہی اپنا کام کرتے ہیں اور بربادی کا سبب ہی بربادی پیدا کرتا ہے۔
وَيَا قَوْمِ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مَالًا ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّـهِ ۚ وَمَا أَنَا بِطَارِدِ الَّذِينَ آمَنُوا ۚ إِنَّهُم مُّلَاقُو رَبِّهِمْ وَلَـٰكِنِّي أَرَاكُمْ قَوْمًا تَجْهَلُونَ ﴿٢٩﴾ سورة هود:یہ اشارہ ہے کہ مخلص تبلیغ کرنے والوں کی نگاہیں مال دنیا پر نہیں ہوتی ہیں اور دین کے نام پر کھانے کمانے والے دین کے
مخلص نہیں ہوتے ہیں۔
وَنَادَىٰ نُوحٌ ابْنَهُ وَكَانَ فِي مَعْزِلٍ يَا بُنَيَّ ارْكَب مَّعَنَا وَلَا تَكُن مَّعَ الْكَافِرِينَ ﴿٤٢﴾ سورة هود: ایک مبلغ کا صحیح فریضہ یہی ہے کہ کسی آن بھی اپنے کلام کی تاثیر سے مایوس نہ ہو اور برابر ہدایت قوم پر لگا رہے۔ حد یہ ہے کہ اگر جناب نوح کی طرح یقین بھی ہو جائے کہ اثر نہ ہوگا تو بھی وجوب تو ساقط ہو جائے گا لیکن حسن ظن بہر حال برقرار رہے گا اور کام کو جاری رکھنا چاہئے۔ یہ واقعہ ہر باپ کے لئے ایک سبق ہے کہ آخر تک بیٹے کی ہدایت کرتے رہنا چاہئے اور پھر سامان تسکین بھی ہے کہ اگر بیٹا ڈوب بھی جائے تو باپ اپنے کو قصور وار نہ سمجھے کہ نوحؑ جیسے پیغمبر کا بیٹا بھی غرق ہو چکا ہے اور یہی حال بیوی کا بھی ہے کہ ہدایت کرنا اپنا فرض ہے پھر اس کے بعد بچنا یا ڈوبنا اس کا اپناعمل ہے۔
قَالَ يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ ۖ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ۖ فَلَا تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۖ إِنِّي أَعِظُكَ أَن تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ ﴿٤٦﴾ سورة هود:آیت نے صاف واضح کردیا ہےکہ نبی کے اہل میں نسب سے شمول نہیں ہوتا ہے اس کے لئے عمل صالح درکار ہوتا ہے اور عمل صالح نہ ہو تو ابولہب بھی خارج ہو جاتا ہے اور عمل صالح ہوتو سلمانؒ بھی داخل ہو جاتے ہیں ۔ صرف نسب سیادت پر ناز کرنے والے اس نکتہ پر خصوصیت کے ساتھ توجہ دیں۔
Add new comment