ماہ رمضان المبارک کے آٹھویں دن کی دعا
اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِی فِیهِ رَحْمَةَ الْاَیْتامِ وَ إِطْعامَ الطَّعامِ وَ إِفْشاءَ السَّلامِ وَصُحْبَةَ الْکِرامِ، بِطَوْ لِکَ یَا مَلْجَأَ الْاَمِلِینَ
ترجمہ : اے معبود! مجھے اس مہینے میں توفیق عطا کر کہ یتیموں پر مہربان رہوں، اور لوگوں کو کھانا کھلاتا رہوں، اور با آواز بلند سلام کروں اور شرفاء کی مصاحبت کی توفیق عطا کر، اے آرزومندوں کی پناہ گاہ۔
اہم نکات:اس دعا میں چند باتوں کو محوریت دی گئی ہے: (1)یتیموں اور بے نواؤں کی سرپرستی اور ان پر خاص توجہ(2) کھانا کھلانا(3)اسلامی آداب کی رعایت اور سلام میں پیش قدمی کرنا(4)دوست اور رفیق کا مسئلہ۔
دعائیہ فقرات:
(1)اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِی فِیهِ رَحْمَةَ الْاَیْتامِ: اسلام، یتیموں،مسکینوں،بیواؤں،بے سہارا اورغریب طبقے کو سہارا دینے، ان کی مکمل کفالت کرنے، ان سے پیار کرنے اور انہیں کھانا کھلانے، انہیں وسائل مہیا کرنے اور انہیں آسودگی فراہم کرنے کی ناصرف ترغیب دیتا ہے بلکہ معاشرے کے بے کس، محروم، نادار طبقے اور سوسائٹی کے محتاج، بے سہارا اور معصوم بچوں کی کفالت کے اہتمام کا حکم بھی دیتا ہے۔۔۔۔۔۔امیرالمومنین علیہ السلام ضربت کے بعد اور شہادت سے پہلے وصیت فرماتے ہیں: "اللّه َ اللّه َ في الأيتامِ، فلا تُغِبُّوا اَفواهَهُم، و لا يَضِيعوا بحَضرَتِكُم "دیکھو یتیموں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا کہیں ان کے فاقوں کی نوبت نہ آجائے اور وہ تمہاری نگاہوں کے سامنے برباد ہوجائیں" یتیم نواز امام حضرت امام علی علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے: "ما مِن مُؤمنٍ و لا مُؤمِنَةٍ يَضَعُ يَدَهُ على رأسِ يَتيمٍ تَرَحُّما لَهُ إلاّ كَتَبَ اللّه ُ لَهُ بكُلِّ شَعرَةٍ مَرَّت يَدُهُ علَيها حَسَنَةً (ثواب الأعمال، شیخ صدوق، ج1، ص199۔ )کوئی مومن مرد اور مومن عورت نہیں ہے جو اپنا ہاتھ یتیم کے سر پر رحم کرتے ہوئے رکھے مگر اللہ اس کے لئے ہر بال کے بدلہ جس پر اس کا ہاتھ پھرا، ایک نیکی لکھ دیتا ہے"،ابوالطفیل کا کہنا ہے: میں نے ایک دن حضرت علی علیہ السلام کو دیکھا کہ آپؑ نے یتیموں کواپنے پاس بلایا، پھر آپؑ ان پر اس طرح مہربانی کرتے اور انہیں شہد پلاتے کہ آپؑ کے بعض اصحاب آرزو کرتے کہ اے کاش ہم بھی یتیم ہوتے۔(بحارالانوار، ج41، ص29۔)
(2) وَ إِطْعامَ الطَّعامِ: روزہ رکھ کر بھوکے اور نادار مسلمان کا خیال رکھنا بھی روزے کا ایک مقصد ہے مسکینوں کو کھلانا بھی اس مہینے کا ایک بہترین عمل ہے۔۔۔۔آ ج کل بڑی بڑی افطاریاں دی جاتی ہیں جنمیں عموماََ پیسے کی نمائش ہوتی ہیں اگر ایک مالدار شخص افطاری کا اہتمام کروائے بھی تو وہ مالداروں کو نہیں بھولتا،یاد تو بس غریب نہیں رہتے۔۔ اگر مالدار کو افطاری پر بلانا بھول بھی جائیں تو کتنی بار معذرت ہوتی ہے اسِ ’’گناہ‘‘کا’’ کفارہ‘‘ تک ادا کیا جاتا ہے،جواب میں دوسرے مالدار بھی ان کے ساتھ خوب’’ نیکی‘‘ کرتے ہیں ،اور اگر کوئی غریب قسمت کا مارا ایسی دعوت پر چلا بھی جائے تو شاید وہ واپس بھوکا ہی جانا پسند کرے گا۔۔۔ یہاں مطلب یہ نہیں کہ کھانے پینے ،عزیزوں اور دوستوں کوروزہ افطار کروانے میں کوئی حرج ہے مگر یہ مقصد ضرور ہے کہ اصل نیکی توغریب کا پیٹ بھرنا ہے اگر یہ کام ہو رہا ہے توپھر کسی کو کھلانے میں کوئی حرج نہیں۔۔۔۔مگر کیا ہم نے کبھی مالداروں کو ماہِ رمضان میں غریبوں اور یتیموں کا پتا پوچھتے ان کا گھر تلاش کرتے پایا ۔۔۔یا امیر کوکھانا اٹھا کر غریب کے گھر کارخ کرتے پایا ۔۔۔اس کے علاوہ امیر کو غریب کے ساتھ ایک برتن میں کھاتے ہوئے کتنی بار دیکھا؟ ہاں البتہ۔۔۔اپنی کلاس کے لوگوں کے ساتھ توپارٹیاں نوش فرمائی جاتی اکثر ملاحظہ ہوئی ہوں گی۔آج کل تو اچھے اور بڑے بڑے ہوٹلوں میں بھی یہ ’’عبادت‘‘ہو رہی ہے۔۔۔۔۔تعجب کی بات تو یہ ہے کہ ہر کلاس کے لوگوں کواسی کلاس کے " پیشنماز" بھی مل جاتے ہیں۔۔۔مگر رب العزت کا شکر ہے کہ کھا پی کر نمازباجماعت تو ہر جگہ ہو ہی جاتی ہے۔۔۔۔۔!بہر حال ماہ مبارک رمضان میں افظار دینے اور اطعام کرانے کی بہت فضیلت اور اہمیت ہےامام زین العابدین علیہ السلام کی سیرت میں مذکور ہے کہ آپ آبگوشت آمادہ کرواتے تھے اور پیالہ پیالہ کرکے سب تک پہنچواتے تھے اور خود نان و خرما کے ذریعہ افطار فرماتے(بحار الانوار،93/317)امام کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں:فطرک اخاک الصائم افضل من صیامک ؛جو کوئی اپنے مسلمان روزہ دار بھائی کو افطار کرائے اس نے اپنے اصل روزے سے بھی بڑھکر اعلیٰ اور افضل کام کیا ہے(مستدرک سفینۃ البحارج6ص421)
(3) وَ إِفْشاءَ السَّلامِ:سلام کرنا مستحب ہے اور اسکا جواب دینا واجب لیکن ثواب کے معاملہ میں یہ واجب اپنے ساتھی مستحب سے بہت نیچے اور پیچھے رہ جاتا ہے، سلام کی نیکی کے کل ستّر حصے ہیں جنمیں سے 69 حصہ اسکا ہے جو پہلے سلام کرےمگر جو سلام کا جواب دیتا ہے اسکا صرف ایک ہی حصہ اجربنتا ہے؛السلام سبعون حسنۃ تسع و ستون للمبتدی و واحدۃ للراد۔(مشکاۃ الانوار فی غرر الاخبار ص197)اسی طرح روایات میں وارد ہے کہ : جو کوئی بلند آواز سے سلام کرے اسکا گھر نیکیوں اور بھلائیوں کا مرکز بن جاتا ہے(وسائل الشیعہ،ج1ص489)۔۔۔
(4) وَصُحْبَةَ الْکِرامِ:دعا کا یہ حصہ ایک اچھے دوست اور رفیق کی درخواست پر مشتمل ہے، انسان کے اوپر اس کے اطراف کے لوگ بہت زیادہ مؤثر ہوتے ہیں خصوصا اس کے دوست اس کے اوپر فکری اور عقیدتی لحاظ سے سب سے زیادہ اثر ڈالتے ہیں جس کے بارے میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس طرح ارشاد فرمارہے ہیں: «ألمَرءُ عَلَی دین خَلیلِهِ فَلیَنظُر أحَدُکُم مَن یُخالِلُ، انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے اس لئے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ وہ کس کو اپنا دوست بنارہا ہے»[ بحارالانوار، ج ۷۱، ص ۱۹۲]۔ اس روایت میں انسان کے اوپر جو اثر ہوتاہے اس کو بیان کیا گیا ہے، انسان کے اوپر اس کے دوست کا اثر کس طرح ہوتا ہے اس کواس طرح بیان کیا جاسکتا ہے: جس طرح پٹرول(petrol) کو شکر کے ساتھ نہیں رکھا جاتا کیونکہ شکر میں پٹرول کو بو بس جاتی ہے اسی طرح انسان کے اوپر اس کے دوست کا اثر بہرحال پڑتا ہی ہے اس لئے ضروی ہے کہ ہم اپنے آپ کو برے دوستوں سے محفوظ رکھیں اور خدا سے دعا کرتے رہیں الحقنی بالصالحین۔۔۔
(5) بِطَوْ لِکَ یَا مَلْجَأَ الْاَمِلِینَ: اور آخر کے اس فقرہ میں ہم خود خدا کی بارگاہ میں متوسل ہیں کہ یہ ساری التجائیں بغیر تیرے لطف و کرم کے سَراب کے سوا کچھ نہیں اس لئے ہمیں اپنے حفظ و امان میں رکھنا۔۔۔۔
Add new comment