ماہ رمضان المبارک کے پہلے دن کی دعا
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ صِیامِی فِیہِ صِیامَ الصَّائِمِینَ وَقِیامِی فِیہِ قِیامَ الْقائِمِینَ وَنَبِّھْنِی فِیہِ عَنْ نَوْمَةِ الْغافِلِینَ، وَھَبْ لِی جُرْمِی فِیہِ یَا إِلہَ الْعالَمِینَ، وَاعْفُ عَنِّی یَا عافِیاً عَنِ الْمُجْرِمِینَ
اے معبود! میرا آج کا روزہ حقیقی روزے داروں جیسا قرار دےاور میری عبادت کوسچے عبادت گزاروں جیسی قرار دے اور مجھ کو ہوشیار کر دے غافلوں کی نیند سے اور میرے گناہ کو بخش دے اے عالمین کے معبود اور مجھ کو معاف کر دے اے گنہگاروں کے معاف کرنے والے۔
اہم نکات: (1)ایسی توفیق کی درخواست جس سے حقیقی رازہ دار بنا جاسکے۔(2)انماز اور شب زندہ داری انجام دینے کی درخواست(3) درگاہ رب العزت میں عفو و بخشش کی درخواست۔
دعائیہ فقرات:
(1)اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ صِیامِی فِیہِ صِیامَ الصَّائِمِینَ وَقِیامِی فِیہِ قِیامَ الْقائِمِینَ:اس دعائیہ جملہ سے یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ اعمال وعبادات کے دو رخ ہیں ایک ظاہر دوسرا باطن اس دعا کے ذریعہ درحقیقت ہم درخواست کرتے ہیں کہ ظاہری روزہ کے ذریعہ حقیقی اور واقعی روزہ تک رسائی حاصل کرلیں اور ظاہر نماز سے حقیقت نماز تک پہنچ جائیں،کیونکہ انسان ایک ایسے وجود کا حامل ہے، جو دو عناصر پر مشتمل ہے، ایک اس کا وجود حیوانی، دوسرے اس کا وجود روحانی،روزہ اصل میں جز ثانی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرکے اس کی تقویت و توانائی کا سامان فراہم کرتاہےکیونکہ اگر روزہ رکھ کر بھی روح، جلوۂ ربانی کے لیے ترستی، روتی اور تڑپتی رہے اور بہمیت ہنستی، کھیلتی، اچھلتی کودتی اور دندناتی پھرتی رہے، گویا جیسے تھے ویسے ہی رہیں، روزہ بس روز جیسا ہی رہے، تو ایسا بے روح روزہ ایسے ہی ہیں جیسے کوئی پھول ہو، مگر خوشبو نہ ہو،کوئی جسم ہو، مگر روح نہ ہو، کوئی چراغ ہو مگر روشنی نہ ہو، روح لطیف، نگاہ عفیف، روزہ حصول مقاصد کا وسیلہ نہ بنے تو ایسا ویسا روزہ اللہ کو مقصود و مطلوب و منظور نہیں، ماہ رمضان میں صیام و قیام کا اہتمام، تلاوت قرآن کے انصرام کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ ’’نور تجلی جو خاک میں پنہاں ہے۔‘‘ فربہ اور توانا بن کر ’’اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن‘‘ کے مصداق، قابل بن جائے۔
(2) وَنَبِّھْنِی فِیہِ عَنْ نَوْمَةِ الْغافِلِینَ:نماز اور روزہ کی حقیقت تک پہنچنے کا لازمہ یہ ہے کہ انسان خواب غفلت سے بیدار ہوجائے؛غفلت کے اسباب:1۔ دنیا میں رونما ہوئے حادثات و واقعات سے عبرت نہ لینا: پیغمبر اسلام صلی الله علیہ و آلہ فرماتے ہیں: غافلترین شخص وہ ہے جو دنیا کے بدلتے حالات سے عبرت نہ حاصل کرے {بحارالانوار، ج 77، ص 112} 2۔ عمر کو بیہودہ برباد کرنا: حضرت علی علیه السلام فرماتے ہیں:غفلت کے لئے کیا یہی کافی نہیں کہ انسان اپنی عمر کو ایسی جگہ برباد کرے جو اسکی نجات کا باعث نہ ہو (غررالحکم، ماده غفل) 3۔ لاابالی پن:جناب لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا:غافل کی تین نشانیاں ہیں: کھویا کھویا رہنا،کہیں گُم رہنا،بھولکڑ ہونا۔ (تفسیر نور الثقلین، ج 2، ص 815)غفلت کا انجام:1۔ بے وقوفی: حضرت علی علیه السلام :غافل بے وقوف ہے۔( نهج البلاغه، خ 153) 2۔ قساوت قلب:امام باقر علیه السلام: غفلت سے بچو کیونکہ اس سے قلب سخت ہوجاتا ہے۔( اور انسان ظلم پر اُتارو نظر آتا ہے)( بحارالانوار، ج 78، ص 164)3۔ هلاکت: حضرت علی علیه السلام: جسکی غفلت کا دورانیہ جتنا زیادہ طولانی ہوگا وہ اتنی ہی جلدی ہلاک و برباد ہوگا۔ (غررالحکم، ماده غفل) 4۔ قلب کا مردہ ہوجانا:حضرت علی علیه السلام: جس کسی پر غفلت حاوی ہوجائے اسکا دل مَر جاتا ہے۔ (غررالحکم، ماده غفل) 5۔ بصیرت کا ختم ہوجانا:حضرت علی علیه السلام: غفلت کا بڑھتا رہنا عقل کو اندھا بنا دیتا ہے۔ (غررالحکم، ماده غفل)6۔ گھاٹا:امام علی علیہ السلام:جس نے اپنے نفس کا محاسبہ کیا وہ فائدہ میں رہا اور جو اس سے غافل رہا وہ سراسر گھاٹے میں رہے گا۔ (نهج البلاغه، حکمت 208)غفلت کے عوامل1۔ اموال و اولاد: قرآن کریم : اے ایمان والو! تمہارا مال اور تمہاری اولاد تمہیں خدا کی یاد سے غافل نہ کردے اور جو ایسا کرے گا وہی لوگ گھاٹا اٹھانے والے ہیں۔ (منافقون/ 9) 2۔ آرام و آسائش: قرآن کریم ….اصل بات یہ ہے کہ تو نے انہیں اور ان کے بزرگوں کو عزّت دنیا عطا کردی تو یہ تیری یاد سے غافل ہوگئے ….. (فرقان/ 18)3۔ زیادہ کی ہوس: الهکم التکاثر ؛ تمہیں باہمی مقابلہ کثرت مال و اولاد نے غافل بنادیا (تکاثر/ 1)
(3)وَھَبْ لِی جُرْمِی فِیہِ یَا إِلہَ الْعالَمِینَ، وَاعْفُ عَنِّی یَا عافِیاً عَنِ الْمُجْرِمِینَ:اور اس آخری فقرہ میں درخواست کرتے ہیں کہ ہمارے گناہوں کو بخش دے کہ خدا کی عادت ہی بخشنا ہے لیکن حقوق العباد کے سلسلہ میں اگر کوئی خطا ہوئی ہو تو اسکی معافی خود جاکر جس کے حق میں تقصیر کی ہے اس سے مانگنی ہوگی۔۔۔
Add new comment