خلاصہ: زیارت جامعہ کبیرہ کی تشریح کرتے ہوئے ملائکہ کے اور وحی کے بارے میں گفتگو کی جارہی ہے۔
زیارت جامعہ کبیرہ میں حضرت امام علی النقی الہادی (علیہ السلام) فرماتے ہیں:"اَلسَّلامُ عَلَيْكُمْ يا اَهْلَ بَيْتِ النُّبُوَّةِ، وَ مَوْضِعَ الرِّسالَةِ، وَ مُخْتَلَفَ الْمَلائِكَةِ"، "آپ پر سلام ہو اے نبوت کا گھرانہ، اور رسالت کا مقام، اور ملائکہ کے آمد و رفت کا مقام"۔
فرشتہ کا نزول، فرشتہ کو دیکھنا، وحی کا نزول، وحی کو لینا اور اس جیسے الفاظ ایسے الفاظ ہیں جن کو ہم زبان پر جاری کرتے ہیں، لیکن اس کی حقیقت ہمارے لیے واضح نہیں ہے، کیونکہ ان امور کو سمجھنا ہمارے پانچ حواسّ میں سے کسی حسّ کے ذریعے ممکن نہیں ہے۔ درحقیقت اس کے لئے ایک اور حسّ کی ضرورت ہے جو ہمارے پاس نہیں ہے۔اس سلسلہ میں ہماری مثال اس پیدائشی اندھے کی طرح ہے جو رنگوں کی پہنچان کرنا چاہے تو ایسا شخص جب آنکھ کو سفید رنگ سے حاصل ہونے والی لذت کو سمجھنا چاہے تو اس کے پاس دیگر چار حواسّ سے مدد لینے کے علاوہ کوئی اور حل نہیں ہے۔ اسی لیے پوچھتا ہے: کیا آنکھ کی لذت سے مراد یہ ہے کہ میٹھی ہے؟ نرم و لطیف ہے؟ خوشبودار ہے؟ اس کی آواز دلکش ہے؟ یعنی اس مسئلہ کو اپنے دیگر حواسّ کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن وہ جو صفات کہتا ہے کوئی بھی صفت سفید رنگ کی نہیں ہے۔ سفید رنگ کو سمجھنے کے لئے ایک اور حسّ کی ضرورت ہے جو نابینا کے پاس نہیں ہے۔
لہذا فرشتہ کو دیکھنا، وحی کے ادراک کی حقیقت، وحی کی مختلف قسموں اور دیگر چیزوں میں احتمالی فرق کا ادراک، مادّی پانچ حواسّ کے ذریعے ممکن نہیں ہے، بلکہ کسی اور ادراکی قوت کی ضرورت ہے کہ جن کے پاس یہ قوت نہ ہو تو وہ اسے نہیں پہچان سکتے۔ اسی لیے ان امور کی حقیقت کو صرف وہی پہچان سکتے ہیں جن کے پاس یہ ادراکی قوت ہو، یعنی معصومین (علیہم السلام)۔
۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[ماخوذ از: ادب فنای مقرّبان، آیت اللہ جوادی آملی]
Add new comment