خلاصہ: نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ کی مختصر تشریح بیان کرتے ہوئے مولائے کائنات حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کے اس فقرے کے بارے میں گفتگو کی جارہی ہے جو اس بارے میں ہے کہ اللہ کی توحید کا کمال، اس کے لئے اخلاص ہے۔
نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ میں حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "وَكَمَالُ تَوْحِيدِهِ الاِخْلاَصُ لَهُ"، "اور اس کی توحید کا کمال، اس کے لئے اخلاص ہے"۔
اخلاص، خلوص سے ماخوذ ہے، خالص کرنے اور پاک کرنے کے معنی میں ہے۔
نہج البلاغہ کے مفسرین کے درمیان بحث و گفتگو ہے کہ یہاں پر اخلاص سے مراد عملی یا قلبی یا اعتقادی اخلاص ہے۔
عملی اخلاص یہ ہے کہ جو شخص اللہ کی توحید کی انتہاء تک پہنچا ہوا ہو وہ صرف اس کی عبادت کرتا ہے اور ہر چیز میں اور ہر کام میں اس کا مقصد، اللہ ہے۔ یہ وہی بحث ہے جس کے بارے میں فقہاء عبادت میں اخلاص کی بحث میں گفتگو کرتے ہیں، مگر یہاں پر توحید سے مراد عملی توحید کا ہونا بعید احتمال ہے، کیونکہ سب پچھلے اور اگلے فقرے، اعتقادی مسائل کے بارے میں گفتگو کررہے ہیں اور واضح ہے کہ یہ جملہ بھی اعتقادی اخلاص کے بارے میں ہے۔
قلبی اخلاص یہ ہے کہ انسان کا سارا دل اللہ کی طرف متوجہ ہو اور اس کے سوا کے بارے میں نہ سوچے اور اللہ کے علاوہ کوئی چیز اسے اپنے میں مصروف نہ کرے، یہ اگرچہ بلند و بالا مقام ہے، لیکن پھر بھی ان فقروں کے مطابق نہیں ہے اور بعید ہے کہ اس فقرے سے مراد یہ ہو۔
واحد مفہوم جو اس فقرے کے مطابق ہے یہ ہے کہ اعتقاد کو اللہ تعالیٰ کے بارے میں خالص کیا جائے، یعنی اللہ تعالیٰ کو ہر لحاظ سے واحد و بلاشبیہ اور اسے ترکیبی اجزاء سے پاک و منزّہ سمجھا جائے۔ [ماخوذ از: پیام امام، ج۱، ص۸۵]
مرحوم علامہ طباطبائی فرماتے ہیں: "... علم کے لحاظ سے بھی اور عمل کے لحاظ سے بھی اپنے آپ کو اللہ کے لئے خالص کرے، اس لیے ہے کہ امام نے فرمایا: وَكَمَالُ تَوْحِيدِهِ الاِخْلاَصُ لَهُ"۔ [ماخوذ از: ترجمہ تفسیر المیزان، ج۶، ص۱۳۷]
۔۔۔۔۔۔۔۔
ماخوذ از:
[پیام امام، آیت اللہ مکارم شیرازی]
[ترجمہ تفسیر المیزان، علامہ طباطبائی]
Add new comment