خلاصہ: نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ کی مختصر تشریح بیان کرتے ہوئے مولائے کائنات حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کے اس فقرے کے بارے میں گفتگو کی جارہی ہے جو اس بارے میں ہے کہ اللہ کی تصدیق کا کمال اس کی توحید ہے۔
نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ میں حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "وَكَمَالُ التَّصْدِيقِ بِهِ تَوْحِيدُهُ"، "اور اس کی تصدیق کا کمال اس کی توحید ہے"۔
جب انسان نے اللہ تعالیٰ کو تفصیلی معرفت یعنی دلیل اور برہان کے ساتھ پہچان لیا تو ابھی مکمل توحید کے مرحلے تک نہیں پہنچا، مکمل توحید یہ ہے کہ اس کی ذات کو ہر طرح کے شبیہ اور مانند سے پاک و منزّہ سمجھا جائے، کیونکہ جو شخص اس کے لئے کوئی شبیہ اور مانند مان لے تو درحقیقت اس نے جسے پہچانا ہے وہ اللہ نہیں ہے، اس لیے کہ اللہ لامحدود وجود ہے ہرلحاظ سے، اور وہ ہر کسی سے اور ہر چیز سے بے نیاز ہے۔ جس چیز کی کوئی شبیہ اور مانند پائی جاتی ہو یقیناً وہ چیز محدود ہے، کیونکہ وہ دونوں شبیہ چیزیں، ایک دوسری سے جدا ہیں اور ایک کے کمالات دوسری میں نہیں پائے جاتے۔
لہذا اللہ کی پاک ذات کی تصدیق تب کمال کے مرحلہ تک پہنچے گی کہ انسان اسے واحد اور ایک سمجھے، اور نہ کہ عدد والا واحد اور ایک، بلکہ واحد اور ایک اس معنی میں کہ اس کا کوئی ہم پلہ نہیں ہے اور اس کا کوئی شبیہ اور مانند نہیں ہے۔ [ماخوذ از: پیام امام، ج۱، ص۸۴]
مشرکین اور بت پرست، اللہ کے سامنے بھی خضوع کرتے تھے اور بتوں کے سامنے بھی، مگر اللہ کے سامنے ایسا خضوع کرنا ناقص ہے اور اللہ کے سامنے خضوع تب مکمل ہوتا ہے کہ خضوع کے تمام مراتب کو غیراللہ کی طرف سے ہٹا دیا جائے اور اللہ کی طرف خضوع کیا جائے، لہذا اللہ کی تصدیق اور اس کے مقام کے سامنے خضوع اس حال میں مکمل ہوتا ہے کہ من گھڑت شریکوں اور معبودوں سے رُخ موڑ لیا جائے۔ [ماخوذ از: ترجمہ تفسیر المیزان، ج۶، ص۱۳۶]
۔۔۔۔۔۔۔۔
ماخوذ از:
[پیام امام، آیت اللہ مکارم شیرازی]
[ترجمہ تفسیر المیزان، علامہ طباطبائی]
Add new comment