خلاصہ: انسان جس انداز میں کسی سے بات کرتا ہے، ادب و احترام کے ساتھ بات کرنا یا بے احترامی سے بات کرنا، اس کے ضمیر کی پاکیزگی یا عدم پاکیزگی کی نشاندہی کرتا ہے۔
جب آدمی تلخ کلامی، بدزبانی، بدسلوکی اور بے احترامی کے ساتھ کسی کو بلاتا ہے تو یہ انداز اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس کا ضمیر اور باطن خراب ہے۔
بعض لوگ دوسروں کو بلاتے ہوئے ادب و احترام کا خیال نہیں رکھتے اور دوسروں کو اپنے سے حقیر سمجھتے ہیں، مگر یہی لوگ اگر کسی کے محتاج ہوجائیں تو نرم زبان سے، اچھے انداز میں اور احترام سے بات کریں گے، یہ تبدیلی درحقیقت ان کے ضمیر میں پیدا نہیں ہوئی، بلکہ اپنی مجبوری کی وجہ سے وہ عارضی طور پر اپنا اندازِ گفتگو بدل لیتے ہیں تا کہ اپنا مسئلہ حل کروا لیں، جب ان کا مسئلہ حل ہوجائے تو کیونکہ ان کا ضمیر خراب ہے تو مجبوری کے علاوہ عام حالات میں وہی خراب ضمیر بولے گا، یعنی درحقیقت زبان کو حرکت دینے والا ضمیر ہے۔
اگر انسان کا ضمیر اچھا ہو تو ضمیر زبان کو اچھے انداز میں بلوائے گا اور اگر ضمیر خراب ہو تو ضمیر زبان کو بے احترامی کے ساتھ بلوائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زبان انسان کے ضمیر کے قبضہ میں ہے۔ اگر اس کا ضمیر پاک اور صاف ہو تو وہ ہر کسی سے ادب و احترام کے ساتھ بات کرے گا۔
حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) ارشاد فرماتے ہیں: "عَوِّد لِسانَكَ لِينَ الكَلامِ و بَذلَ السَّلامِ ، يَكثُر مُحِبّوكَ و يَقِلَّ مُبغِضوكَ" ، "اپنی زبان کو نرم کلامی اور سلام کرنے کی عادت ڈالو تا کہ تم سے محبت کرنے والے بڑھ جائیں اور تم سے دشمنی کرنے والے کم ہوجائیں"۔ [غرر الحكم و درر الكلم، ص۴۵۷، ح۳]
۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[غرر الحكم و درر الكلم، آمدی]
Add new comment