خلاصہ: کافر بھی پیاس کی وجہ سے پانی کی تلاش میں ہے، مگر پانی کے بجائے سراب کی طرف رواں دواں ہے۔
جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ہے، ان کے اعمال، کردار اور مقصد اور مراد سراب کی طرح ہیں۔ سراب خیالی پانی ہے نہ کہ حقیقی پانی۔ آدمی اس پانی تک پہنچنے کے لئے جتنا آگے جاتا ہے، پانی تک نہیں پہنچتا، کیونکہ وہ سراب ہے۔ ریت اور چمکیلے پتھروں پر سورج کی کرنوں کے پڑنے سے دور سے پانی کا منظر دکھائی دیتا ہے اور پیاسا آدمی اسے پانی سمجھتا ہے۔
کفار پانی کی تلاش میں بھی ہیں اور اللہ کی تلاش میں بھی ہیں، وہ اسے حاصل کرنے کے لئے اور اس تک پہنچنے کے لئے جدوجہد اور کوشش کررہے ہیں، لیکن راستے کو گم کربیٹھے ہیں۔ راستہ پانی تک پہنچنے والا ہونا چاہیے نہ کہ سراب تک۔ مومن پانی کی تلاش میں پانی تک پہنچنے والے راستے پر چلتا ہے اور پانی تک پہنچنے والے راستے سے حقیقت کے صاف اور میٹھے چشمے تک پہنچ جاتا ہے اور سیراب ہوجاتا ہے۔
کافر پیاس کو بجھانے کے لئے اور پانی تک پہنچنے کے لئے پانی کے راستے کو طاق نسیان پر رکھ دیتا ہے اور سراب کے راستے کو اختیار کرلیتا ہے، اور دنیا کی عارضی چیزوں جیسے مال، مقام، بیوی، بچے، ریاست اور حکومت کو بڑھانے کے لئے زیادہ سے زیادہ کوشش کرتا ہے اور جتنا زیادہ کوشش کرے اتنا ہی حقیقت کے راستے سے زیادہ دور ہوتا ہوا سراب کے زیادہ قریب ہوجاتا ہے اور سورچ کی تپش اور خشک بیابان کی جلن اس کے جگر کو زیادہ پیاسا کرتی ہے، اس کی زندگی گزرتی جارہی ہے، واپس پلٹنے کا راستہ باقی نہیں رہا تو بدبختی اور مصیبت کے ساتھ اپنے آرزوؤں میں دفن ہوجاتا ہے اور باطل خیالات اور افکار اس کی قبر بن کر رہ جاتی ہیں۔
پیاسا کافر پانی سے سیراب ہونے کے لئے، اپنی خیالی دنیا کے چٹیل اور گرم بیابان میں پانی کی تلاش میں دوڑتا رہتا ہے، لیکن کبھی پانی کو پانہیں سکتا اور اس کی زندگی بھی گزر جاتی ہے، حیات کی نعمت کو کھو بیٹھتا ہے کیونکہ صراط مستقیم پر نہیں چلا، صرف سراب کی طرف چلتا رہا اور سراب انسان کو سیراب نہیں کرتا۔ آخرکار اس نے اپنی زندگی تباہ کرڈالی اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شرمندہ ہوگا اور اس کا مواخذہ کیا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[اصل مطالب ماخوذ از: معادشناسی، علامہ آیت اللہ سید محمد حسین حسینی طہرانی]
Add new comment