خلاصہ: ہمیں اس بات پر توجہ کرنا چاہیے کہ ہم نے بعض اہم مسائل کی غیراہم مسائل سے جگہ بدل تو نہیں دی، یعنی غیر اہم مسائل کے بارے میں دن رات اپنی سوچ کو مصروف کردیا ہو اور اہم مسائل کو طاق نسیان پر رکھ دیا ہو۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قرآن کریم کی تقریباً ۱۲۰۰ آیات آخرت کے بارے میں ہیں، یعنی قرآن کا تقریباً پانچواں حصہ۔ اور تقریباً کوئی صفحہ اس عنوان کے ذکر سے خالی نہیں ہے۔ مرحوم مجلسی (علیہ الرحمہ) نے بحارالانوار کی چھٹی، ساتویں اور آٹھویں جلد میں کئی سو روایات اس سلسلہ میں نقل کی ہیں۔
ہم ایسی دنیا میں زندگی بسر کررہے ہیں جس میں موت اور اس کے بعد والی زندگی کی یاد کم ہوگئی ہے اور ایک لحاظ سے عالمی ثقافت میں اسے مٹا دیا گیا ہے۔ جتنا جنسی مسائل اور ذہنی صلاحیت کے بارے میں بات ہوتی ہے اس کے بہ نسبت ایک فیصد بھی موت کے بارے میں گفتگو نہیں ہوتی اور لوگ خاموشی کے ساتھ اس عنوان سے گزر جاتے ہیں۔
ہماری زندگی الٹی ہوچکی ہے یہاں تک کہ بہت سارے حقیقی اور ضروری مسائل کو عام سی بات سمجھ لیا جاتا ہے اور ادھر سے بہت سارے مزاح اور کھیل کود کو لازمی اور ضروری سمجھا جاتا ہے۔ کسی میچ کو دیکھنے کے لئے کئی گھنٹے ضائع کردیئے جاتے ہیں اور اسے اس قدر ضروری سمجھا جاتا ہے کہ بعض لوگ میچ کی جیت ہار پر اپنی جان گنوانے کے لئے تیار ہیں، لیکن اپنی ابدی اور ہمیشہ کی زندگی کو پہچاننے کے لئے ان کے پاس کوئی وقت نہیں ہے اور اس کے لئے تیار ہونے کو کوئی اہمیت نہیں دیتے، جبکہ اسلامی تعلیمات میں موت کو اہمیت دی گئی ہے۔
انسان اپنی عام زندگی میں اپنے اگلے وقت کے بارے میں غوروخوض کرتا ہے اور اپنے نفع اور نقصان کو مدنظر رکھتے ہوئے محنت و کوشش کرتا ہے۔ اگر انسان اپنی اسی صفت کی بنیاد پر ہی مزید اپنی سوچ کو بڑھائے تو اسے یہ نتیجہ ملے گا کہ موت اور آخرت کے بارے میں بھی غوروخوض کرنے میں وہی نفع اور نقصان کی بات پائی جاتی ہے۔ حضرت امام زین العابدین (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "العَجَبُ كلُّ العَجَبِ لِمَن عَمِلَ لِدارِ الفَناءِ و تَرَكَ دارَ البَقاءِ"، "سارا تعجب ہے اس شخص سے جس نے فانی گھر کے لئے عمل کیا اور باقی گھر کو چھوڑیا"۔ [میزان الحکمہ، ج7، ص64]۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[میزان الحکمہ، محمدی ری شہری]
Add new comment