اختیار اور اجتباء میں فرق، خطبہ فدکیہ کی تشریح

Sat, 02/23/2019 - 18:10

خلاصہ: رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے مختلف مقامات میں سے اختیار اور اجتباء کے مقام کے بارے میں مختصر گفتگو کی جارہی ہے اور ان کا باہمی فرقی بیان کیا جارہا ہے۔

اختیار اور اجتباء میں فرق، خطبہ فدکیہ کی تشریح

      حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) نے خطبہ فدکیہ میں ارشاد فرمایا: " وَ أشْهَدُ أنَّ أبی مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ، اِخْتٰارَهُ وَ انْتَجَبَهُ قَبْلَ أَنْ اَرْسَلَهُ، وَ سَمَّاهُ قَبْلَ اَنْ إجْتَبٰاهُ، وَ اصْطَفاهُ قَبْلَ أنْ إبْتَعَثَهُ"میں گواہی دیتی ہوں کہ میرے باپ محمد، اللہ کے عبد اور اس کے رسول ہیں، اللہ نے آپؐ کو رسول بنانے سے پہلے منتخب کیا اور چن لیا، اور آپؐ کو چننے سے پہلے آپؐ کا نام رکھا، اور آپؐ کو مبعوث کرنے سے پہلے آپؐ کو برگزیدہ کیا"۔
ہوسکتا ہے کہ کوئی یہ سمجھے کہ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) جب چالیس سال کی عمر میں رسالت کے لئے مبعوث ہوئے تو اس سے چند سال پہلے ہی اللہ نے آپؐ کو منتخب کیا ہوگا! لیکن حضرت صدیقہ طاہرہ (سلام اللہ علیہا) کے اس ارشاد سے ایسی سوچ کی نفی ہوجاتی ہے اور یہ بیان ہورہا ہے کہ "اللہ نے آپؐ کو رسول بنانے سے پہلے منتخب کیا اور چن لیا، اور آپؐ کو چننے سے پہلے آپؐ کا نام رکھا، اور آپؐ کو مبعوث کرنے سے پہلے آپؐ کو برگزیدہ کیا"۔
بعض علماء اختیار اور اجتباء کا ایک ہی معنی میں لیتے ہیں، مگر آیت اللہ مجتبی تہرانی (علیہ الرحمہ) فرماتے ہیں: لیکن میری نظر میں ان دونوں الفاظ کے درمیان باریک سا فرق ہے۔ مثال کے طور پر جب ہم لوگ مختلف چیزوں کو دیکھتے ہیں تو ان میں سے ایک چیز ہماری آنکھ کو کھینچ لیتی ہے، یعنی ہم اسے منتخب کرلیتے ہیں اور پھر اسے الگ کرلیتے ہیں، یعنی باقی چیزوں سے جدا کرلیتے ہیں۔ یہاں پر بھی "اِختارَہ" یعنی ایک نظر سے ساری مخلوقات میں آپؐ کو جو سب سے بہتر اور ممتاز تھے، برگزیدہ کیا اور پھر "انْتَجَبَهُ" یعنی آپؐ کو الگ کرلیا۔
۔۔۔۔۔۔
[احتجاج، طبرسی]
[شرح خطبه حضرت زهرا (سلام الله علیها)، آیت اللہ آقا مجتبی تہرانی]

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
3 + 9 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 34