خلاصہ: خطبہ فدکیہ کی تشریح کرتے ہوئے بیسواں مضمون پیش کیا جارہا ہے۔ صرف زبان سے "لاالہ الا اللہ" کہہ دینا کافی نہیں، بلکہ اس کے مطابق عمل کرنا بھی ضروری ہے، جب اس گواہی پر عمل کیا جائے گا تو وہ توحید کی گواہی کا نتیجہ ہے، یہ نتیجہ درحقیقت عمل میں اخلاص ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) نے فرمایا: "وَ أشْهَدُ أَنْ لا اِلهَ اِلا اللّهُ وَحْدَهُ لاشَريكَ لَهُ، كَلِمَةٌ جَعَلَ الْإِخْلَاصَ تَأْوِيلَهَا"، "اور گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ واحد ہے اس کا کوئی شریک نہیں، (یہ ایسا) کلمہ ہے جس کی تأویل (نتیجہ) کو اللہ نے اخلاص قرار دیا"۔ [الاحتجاج، طبرسی، ج۱، ص98]
اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی گواہی ایسا کلمہ ہے جس کا ظاہر اور باطن پایا جاتا ہے۔ اس کا ظاہر یہی ہے جو ہم کہتے ہیں کہ "میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے"، مگر اس کی حقیقت اور باطن بھی ہے جسے سمجھنا چاہیے اور اس پر عمل پیرا ہونا چاہیے، وہ "اخلاص" ہے، "اخلاص" توحید کی گواہی کی تاؤیل اور نتیجہ ہے۔
توحید ذاتی، توحید صفاتی اور توحید افعالی کا نتیجہ "عبادت میں توحید" اور "عمل میں اخلاص" ہے۔ عمل میں اخلاص یہ ہے کہ انسان اپنے اعمال میں اللہ کے سوا کسی کو مدنظر نہ رکھے۔ انسان کو قلبی یقین کی منزل تک پہنچنا چاہیے، قلبی یقین یہ ہے کہ انسان کا دل یقین کرلے کہ حقیقی مالک اور حقیقی عطا کرنے والا صرف اللہ ہے اور اللہ کے سامنے ہر چیز عاجز ہے۔ یہ قلبی یقین ہے اور عمل میں اخلاص لاتا ہے، پھر محال ہے کہ ایسا شخص عمل میں ریا کرے۔ لہذا اگر ہمارے اعمال میں کوئی نقص ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا جو توحید پر عقیدہ ہے، اس عقیدہ میں نقص ہے،اس نقص کو ایمان کی کمزوری بھی کہا جاتا ہے۔ عقیدہ کے لحاظ سے بھی اللہ کے لئے وحدانیت کا معتقد ہونا چاہیے اور تشریع و احکام میں بھی۔ بنابریں جہاں حکمران اللہ کے اذن کے بغیر مقرر ہو وہاں کلمۂ توحید کی تأویل وقوع پذیر نہیں ہوئی، کیونکہ حضرت امام علی ابن موسی الرضا (علیہ السلام) نے نیشاپور میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: " کلمۃُ لا إله إلا الله حصنی فمن دخل حصنی أمن من عذابی" پھر حضرتؑ نے فرمایا: "بشروطها و أنا من شروطها"۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[الاحتجاج، أبي منصور أحمد بن علي بن أبي طالب الطبرسي، مؤسسة الأعلمي للمطبوعات]
[شرح خطبہ فدکیہ، آیت اللہ مصباح یزدی]
[شرح خطبه حضرت زهرا (سلام الله علیها)، آیت اللہ آقا مجتبی تہرانی]
[شرح خطبهى حضرت زهرا (س)، عزالدین حسینی زنجانی]
Add new comment