خلاصہ: عمل اور اخلاص کا تعلق اسی طرح ہے جیسے بدن کا روح سے لہذا اخلاص کے بغیر عمل، بے فائدہ ہے، روزہ بھی چونکہ عبادات میں سے ایک ہے تو روزہ میں بھی اخلاص ہونا ضروری ہے، اس مقالہ میں اخلاص کے بارے میں کچھ روایات اور روزے کے بارے میں کچھ روایات اور پھر اخلاص اور روزہ کا باہمی تعلق کو روایات کی روشنی میں اور تجزیہ کے ساتھ بیان کیا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اخلاص کے معنی یہ ہے کہ انسان عبادت کو انجام دینے میں قصد قربت اور اللہ کی عبودیت کے علاوہ کسی قسم کے مقصد کو مدنظر نہ رکھے۔ نیت کا کردار انتہائی اہم ہے اور نیت عمل کا رکن، بنیاد اور روح سمجھی جاتی ہے یہاں تک کہ صحیح نیت کا نہ ہونا اعمال کے بے قدر ہوجانے کا باعث ہے۔
خالص نیت، ایمان اور عمل دونوں میں ہونی چاہیے۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ اعمال کو بجالانے میں اصلی مقصد، اللہ تعالی کی رضامندی اور عبودیت ہو، نہ کہ اللہ کے علاوہ کسی اور کی رضامندی بھی شامل ہو یعنی عمل ہر طرح کی غرض سے پاک ہو اور صرف اللہ تعالی کے تقرب کے لئے ہو۔ اخلاص کا عبادات میں خاص مقام ہے جیسے نماز اور روزہ میں۔
اخلاص یہ ہے کہ انسان کسی عمل کو نفسانی خواہش، مال و دولت، منصب اور شہرت وغیرہ کو حاصل کرنے اور بری صفات جیسے حسد، لالچ کے لئے بجا نہ لائے بلکہ کام کو محض اللہ کے لئے اور صرف اپنا فریضہ ادا کرنے کے لئے انجام دے۔
روزہ اور اخلاص کا باہمی تعلق یہ ہے کہ روزہ میں اخلاص چھپا ہوا ہے کیونکہ روزہ خاموش عبادت ہے اور نماز، جہاد اور حج وغیرہ جیسی عبادات کی طرح نہیں ہے جن میں جسمانی حرکات اور ظاہری اعمال پائے جاتے ہیں اور جب تک انسان خود، روزہ دار ہونے کا اظہار نہ کرے، کسی کو ظاہری طور پر اس کے روزہ دار ہونے کا پتہ نہیں چل سکتا، اسی وجہ سے روزہ میں ریاکاری اور دکھاوا اتنا پیدا نہیں ہوتا کیونکہ عموماً ریا وہاں ہوتا ہے جہاں آدمی عمل انجام دیتا ہے تا کہ دوسروں کے دیکھنے سے بھی لذت حاصل کرے یا دوسروں کی نظر میں اچھا آدمی شمار ہو مگر روزہ میں دکھاوا کم ہی پیدا ہوسکتا ہے اور صرف اللہ ہی ہے جو اس عمل سے آگاہ ہوتا ہے۔ درحقیقت روزہ میں اخلاص اور توحید افعالی کا سبب زیادہ فراہم ہوتا ہے۔
حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) نہج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ہیں: " اخْشَوْهُ خَشْيَةً لَيْسَتْ بِتَعْذيرٍ وَ اعْمَلُوا فِي غَيْرِ رِيَاءٍ وَ لَاسُمْعَةٍ؛ فَإِنَّهُ مَنْ يَعْمَلْ لِغَيْرِ اللَّهِ يَكِلْهُ اللَّهُ لِمَنْ عَمِلَ لَهُ"[1] " اس کا خوف اس طرح پیدا کرو کہ پھر معذرت نہ کرنا پڑے، عمل کرو تو دیکھانے سنانے سے الگ رکھو کہ جو شخص بھی غیرخدا کے واسطے عمل کرتا ہے خدا اسے اسی شخص کے حوالے کردیتا ہے۔
لہذا روزہ قدرتی طور پر انسان کو اخلاص اور رضائے الہی کے لئے عمل کرنے کی راہنمائی کرتا ہے۔
بغیر اخلاص کا عمل نہ صرف اللہ کی بارگاہ میں انسان کو قریب نہیں کرتا بلکہ دور بھی کردیتا ہے۔
اخلاص کی اہمیت اس حدیث سے ظاہر ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے: "الإخْلاصُ سِرٌّ مِن أسْراري، اسْتَوْدَعتُهُ قَلبَ مَن أحْبَبْتُ مِن عِبادي"[2]، "اخلاص میرے رازوں میں سے ایک راز ہے جسے (صرف) اسی شخص کے دل میں ودیعت کے طور پر رکھتا ہوں جس سے محبت کرتا ہوں"۔ معلوم ہوتا ہے کہ اخلاص ایسی ملکوتی حقیقت ہے جس تک اللہ کے محبوب کے سوا کوئی نہیں پہنچ سکتا۔
پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں: " إنَّ لِكُلِّ حَقٍّ حَقيقةً، و ما بَلغَ عَبدٌ حقيقةَ الإخْلاصِ حتّى لا يُحِبَّ أنْ يُحْمَدَ على شيءٍ مِن عَمَلٍ للّه"[3]، "بیشک ہر حق کے لئے کوئی حقیقت ہے اور عبد اخلاص کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا مگر تب (پہنچ سکتا ہے) جب وہ خواپش مند نہ ہو کہ جو کام اس نے اللہ کے لئے انجام دیا ہے، اس کے بدلے اس کی تعریف ہو"۔
اخلاص کے ساتھ عمل کرنے والا آدمی صرف آخرت کے اجر کے علاوہ دنیا میں بھی لوگوں کی نظر میں محترم ہوجاتا ہے جبکہ ریاکار آدمی آخرت کے نقصان اور اجر الہی سے محرومیت کے علاوہ، دنیا میں بھی اپنے مقصد تک نہیں پہنچ سکتا اور جن لوگوں کے سامنے ریا کرنے کے ذریعے کسی مقام اور عزت کی تلاش میں تھا، اسے بھی نہیں پاسکے گا۔
یہ اخلاص کا مقام ہے اور روزہ کی عظمت یہ ہے کہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ خداوند متعال فرماتا ہے: " الصَّومُ لِي و أنا أجزِي علَيهِ"[4]، "روزہ میرے لئے ہے اور اس کی جزا میں دوں گا"۔
روزہ کیوں واجب کیا گیا؟ حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "فَرَضَ اللّه ... الصِّيامَ ابتِلاءً لإخلاصِ الخَلقِ"[5]، "اللہ نے … روزہ، بندوں کے اخلاص کو آزمانے کے لئے واجب کیا"۔
حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) فرماتی ہیں: " فَرَضَ اللّه الصِّيامَ تَثبِيتا لِلإخلاصِ"، "اللہ نے روزہ، اخلاص کی مضبوطی کے لئے واجب کیا ہے"۔[6]
اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ نیت کا روزہ میں کتنا اہم اور ضروری کردار ہے۔ روزہ کی نیت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اللہ کے حکم کو بجالانے کے قصد سے روزہ رکھے اور صرف اللہ کے لئے رکھے، یعنی روزہ اخلاص کے ساتھ ہونا چاہیے، بنابریں روزہ ایسی عبادت ہے جو اخلاص کی روح کو انسان کے وجود میں اجاگر کرتی ہے۔
ان مطالب سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جیسے خالص نیت کا روزہ پر اثر ہے اسی طرح روزہ بھی نیت پر اثرانداز ہوتا ہے، یعنی نیت کی بنیاد پر روزہ وجود میں آتا ہے اور روزہ رکھنے سے انسان کی نیت زیادہ خالص ہوجاتی ہے، لہذا خالص نیت اور روزہ ایک دوسرے کو مکمل کرتے ہوئے انسان کی ترقی اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں تقرب حاصل کرنے کے اسباب ہیں۔
یہاں پر یہ بات قابل غور ہے کہ اخلاص چونکہ عمل کی روح ہے تو اخلاص کے بھی دوسرے معنوی امور کی طرح درجات ہیں کہ جو اخلاقی کتب میں بیان ہوئے ہیں، اخلاص کا بلندترین درجہ، "صدق کا درجہ" ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان عمل بجالانے سے دنیا و آخرت میں کسی بدلہ کی نیت نہ رکھتا ہو اور عمل کرنے والا شخص ہرگز دونوں جہانوں میں اجر کا خواہشمند نہ ہو اور اللہ کے سوا اس کا کوئی مطلوب اور مقصود نہ ہو، البتہ ایسے درجہ پر ہر کوئی نہیں پہنچتا مگر وہ افراد جو اللہ کی محبت میں ڈوبے ہوئے ہوں۔
لیکن اخروی سعادت و کمال تک پہنچنا، ابدی جنت میں داخل ہونا، آخرت کے عذاب و عقاب سے نجات پانے کے مقصد سے بھی گناہ سے پرہیز کرنا اور اللہ کی فرمانبرداری کرنا اخلاص کے منافی نہیں ہے اور اللہ کی رضا کے مطابق ہے، کیونکہ اخلاص کے مختلف درجات ہیں اور یہ بھی ان درجات میں سے ایک درجہ ہے مگر اس کا فرق صرف، اللہ کی بارگاہ میں درجہ اور مقام کے لحاظ سے ہے یعنی جتنا اخلاص زیادہ ہوگا اتنا درجہ زیادہ بلند ہوگا۔
نتیجہ: لہذا انسان روزہ میں اخلاص کے بلندترین درجات کے مقصد کو پیش نظر رکھتے ہوے اور عمل کو اخلاص کے اعلی درجہ کے مطابق بجالاتے ہوے، سب سے اعلی درجہ والا روزہ دار بن سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] نہج البلاغہ، خطبہ 23۔
[2] منية المريد : 133۔
[3] بحار الأنوار : 72/304/51۔
[4] میزان الحکمہ، ری شہری، ج6، ص389۔
[5] میزان الحکمہ، ری شہری، ج6، ص389۔
[6] میزان الحکمہ، ری شہری، ج6، ص390۔
Add new comment