خلاصہ: دعائے کمیل کی مختصر تشریح کرتے ہوئے حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کی اس دعا کے دوسرے فقرے کے بارے میں گفتگو کی جارہی ہے جس میں اللہ کی قوت کا ہر چیز پر غالب ہونا بیان ہوا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) دعائے کمیل کے دوسرے فقرے میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں: "وَ بِقُوَّتِکَ الَّتي قَھَرْتَ بِھٰا کُلَّ شَيْءٍ"، "اور تیری اُس قوت کے واسطے سے جس کے ذریعے تو ہر چیز پر غالب ہے"۔
وَ بِقُوَّتِکَ: قوت یعنی قدرت (طاقت)، مگر بعض جہات سے ان میں فرق بھی ہے، جیسے:
۱۔ قوت یعنی قدرت کو استعمال کرنا۔
۲۔ قوت یعنی قدرت میں عظمت، لہذا اکثر، قدرت میں عظیم الشان کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی مختلف آیات میں اپنے آپ کو "قوی یعنی قوت والا" کہا ہے، جیسے: "إِنَّ رَبَّكَ ھُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيزُ" [سورہ ھود، آیت 66]۔ "إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ" [سورہ حج، آیت 40]۔
قَہَرْتَ: یعنی تو نے غلبہ پایا۔ قہر، غلبہ کے معنی میں ہے۔ فرق یہ ہے کہ "قہر" میں مقہور چیز کی انکساری ظاہر ہوتی ہے، لیکن جیسی انکساری قہر میں ظاہر ہوتی ہے ویسی انکساری غلبہ میں ظاہر نہیں ہوتی۔
اللہ تعالیٰ نے کئی آیات میں اپنے آپ کو "قہار یعنی غالب" کہا ہے، جیسے: "ھُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ" [سورہ رعد، آیت 16]۔
اللہ تعالیٰ کی قدرت جو کہ اس کی عینِ ذات ہے، بے نہایت اور لامحدود ہے۔ سب طاقتیں اس کی قدرت کے پاس کچھ نہیں ہیں، تمام طاقتیں اس کی قدرت کی دھیمی کرنیں ہیں، لہذا "لاحولَ ولا قوّۃَ الّا باللہ العلیّ العظیم"۔
اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہونے کے علاوہ، اس چیز کو قائم کرنے والا بھی ہے، اسی لیے ہر چیز کا وجود اور بقاء اللہ تعالیٰ سے وابستہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔
ماخوذ از:
[آفاق نيايش تفسير دعاى كميل، آیت اللہ مظاہری دام ظلہ]
[شرح دعای کمیل، حجت الاسلام انصاریان دام ظلہ]
Add new comment