صحت و فراغ

Sun, 12/02/2018 - 19:09

قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: نِعْمَتَانِ مَغْبُوْنٌ فِیْھِمَا کَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ اَلصِّحَّۃُ وَالْفَرَاغُ؛ ترجمہ: رسول اللہ (ص) نے ارشاد فرمایا کہ :دو نعمتیں ہیں جن کے معاملے میں بہت سےلوگ(ان کی قدر کما حقہ نہ کرنے کے سبب ) خسارہ اور نقصان میں ہیں:ایک صحت دوسری فراغت۔( تنبيه الخواطر و نزهة النواظر (مجموعة ورّام) , ج 1 , ص 279) اس حدیث کی مختثر تشریح مندرجہ ذیل تحریر میں ملاحظہ فرمائیں۔

صحت اور فراغ

مختصرتشریح:صحت اور فراغ خدا کی دو عظیم نعمتیں ہیں جنکی قدر کرنا اور ان پر خدا کا شکر بجا لانا بہت ضروری اور واجب ہے،یہ دونوں نفس کے طغیان کا باعث  بھی بنتے ہیں کیونکہ یہ نفس سے سب سے زیادہ قریب ہوتےہیں۔  صحت کے معنی مرض کا نہ ہونا اور عیوب سے پاک ہونے کے ہیں اور فراغ کے معنیٰ مشغولیت کا کم ہونایا ملال آور چیزوں سے دور ہونا  اورہَمّ و غم سے بچے  ہونے کے ہیں۔( البضاعة المزجاة ؛ ج 2 , ص 443)
انسان عبادت میں اسی وقت مشغول ہوسکتا ہے کہ جب وہ صحت مند ہو اور بقدرِ ضرورت رزق ِ حلال ہو، کیوں کہ کبھی آدمی صحت مند ہوتا ہے مگر کسبِ معاش سے فرصت نہیں پاتا اورکبھی کسبِ معاش  سے مستغنی ہوتا ہے لیکن صحت ٹھیک نہیں ہوتی، اور جس کو یہ دونوں نعمتیں حاصل ہوں اور پھر بھی کاہلی کے سبب عبادت میں مشغول نہ ہو تو یہ بڑے ہی خسارے اور نقصان میں ہے،علماء نے لکھا ہے: اَلنِّعْمَۃُ اِذَا فُقِدَتْ عُرِفَتْ،  کوئی نعمت جب ہاتھ سے نکل جاتی ہے تو اس کی قدر وقیمت کا احساس ہوتا ہے۔ اسی طرح صحت اور فراغ کی نعمت کو بہت سے لوگ مفت کھودیتے ہیں اور اس کی قدر ان  کو اس وقت معلوم ہوتی ہے جب بیمار ہوتے ہیں یا کسی تشویش میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اور حق تعالیٰ نے فرمایا کہ قیامت کے دن ندامت نفع نہ دے گی: ذٰلِکَ یَومُ التَّغَابُنِ (سورة التغابن  آیت ۹)یہی دن ہے ہارجیت کا یا سود وزیاں کا۔ اور آنحضرت (ص) نے فرمایا کہ اہلِ جنّت کو جنّت میں کسی بات کی حسرت نہ ہوگی مگر حق تعالیٰ سے غفلت کے لمحات اور اوقات پر ،وہاں  بھی اسی بات پر حسرت ہوگی۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
4 + 4 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 64