حُر بن ریاحی اور زبیربن عوام میں فرق

Fri, 09/14/2018 - 10:32

کربلا کے ہر کردار میں یہ خصوصیت ہے کہ انسان جس بھی کردار کا احوال پڑھے یا مصائب سُنے تو ایک لمحے کیلئے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ شاید وہ سب سے زیادہ رقت اسی کردار کے ذکر پر محسوس کررہا ہے،اس سے قطع نظر ہر کردار میں موجود عبرت ہمیں دعوت فکر و نظر دیتی نظر آتی ہے۔

حُر بن ریاحی اور زبیربن عوام میں فرق

کربلا کا ہر کردار منفرد ہے، ہر کردار انسانی جذبات کو مختلف انداز سے اپیل کرتا ہے لیکن حُر بن ریاحی کا کردار شاید سب سے مختلف ہے  یہ کردار ہم جیسے اُن گناہگاروں کو اپیل کرتا ہے جن کی زندگیاں گناہوں اور خطاؤں کے سائے میں گزرتی رہیں ،  حُرؑ دراصل حق کےمتلاشیوں، گناہگاروں اور خطاکروں کا ہیرو ہے  حرؑ کے بارے میں بے اختیار قران کی وہ آیت ذہن میں آجاتی ہے جس میں اللہ نے بے انتہا شفقت، محبت اور کریمی کے ساتھ انسان کو بتلایا ہے کہ گناہ گار ہو؟ کوئی بات نہیں، میری رحمت سے مایوس مت ہو، میں تمہارے سب گناہ معاف کردوں گا  ۔
جنگ جمل میں امام علیؑ اور حضرت زبیر کے مابین ایک مکالمے کا تذکرہ ملتا ہے  حضرت زبیر جنگ جمل میں امام علیؑ کے مخالف لشکر میں تھے  یہ وہی حضرت زبیر تھے جو امام علیؑ کے بچپن کے ساتھی اور پھوپھی زاد بھائی تھے  یہ وہی زبیر تھے جو وصالِ پیغمر کے بعد امام علیؑ کے مضبوط حمایتی تھے اور اُن کے گھر میں موجود تھے  یہی وجہ ہے کہ جنگ جمل میں جب یہ امام علیؑ کے مقابل آئے تو امامؑ نے بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ اُنہیں مخاطب کرکے کہا کہ زبیر تم تو میرے بچپن کے ساتھی ہو، میرے بھائی ہو، کیا تم بھی مجھ سے جنگ کرو گے؟ کچھ مختصر مکالمہ ہوا تھا اور پھر حضرت زبیر واپس کوفہ چلے گئے  حُر بن ریاحیؑ اور زبیر میں یہی فرق تھا کہ حُر اُس فیصلہ کُن موڑ پر باطل سے حق کی طرف آگیا اور زبیر نے بس میدان سے چلے جانے کو ترجیح دی اور بعض روایات کے مطابق واپسی کے راستے میں قتل کردئے گئے  تاریخ میں یہ دونوں کردار اپنے اپنے اندر ایک پیغام لئے ہوئے ہیں، اگر کوئی سمجھنا چاہے ! میرا مقصد کسی اختلافی معاملے کا ذکر کرنا نہیں بلکہ ان دونوں واقعات میں مماثلت کی طرف توجہ دلوانا ہے ۔
کربلا میں امام حسینؑ اور حُر کا تعلق سمجھنے کیلئے کافی ہے کہ کربلا کوئی حادثہ نہیں تھا بلکہ نواسہ رسولؑ کے ذریعہ تکمیل تک پہنچنے والا اُس ذبحِ عظیم کا میدان تھا جس کا ذکر قران میں کیا گیا،  حُر اور امام حسینؑ کےمابین ہونے والے ہر مکالمے پر غور کرتے چلے جائیں، نتیجہ آپ کے سامنے خود واضح ہوجائیگا کہ نہ یہ دو خاندانوں کی جنگ تھی، نہ یہ کوئی سیاسی مسئلہ تھا اور نہ ہی کوئی حادثہ  ،یہ صرف اور صرف امام حسینؑ اور اُن کے بہتر ساتھیوں کا بپا کیا ہوا وہ آفاقی انقلاب تھا، جس نے انسانی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا  اسی لئے امام حسینؑ نے یہ فرمایا تھا کہ جیسے ساتھی مجھے ملے، ایسے کسی اور کو نہ ملے۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
7 + 5 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 107