چہلم مظلوم کربلا مظہر شعائر الہی

Sun, 04/16/2017 - 11:16

یہ مقالہ حجۃ الاسلام والمسلمین استاد علی رضا پناہیان کی چینل 2 ایران کو چہلم کی فضیلت ، پیدل زیارت کی عصری تاریخ سمیت چہلم سے مربوط اہم موضوعات پر دیئے گئے انٹریو سے اقتباس کیا ہے

 

چہلم مظلوم کربلا مظہر شعائر الہی

اس مضمون میں اسلامی جمہوریہ ایران کے عظیم مفکر حجۃ الاسلام والمسلمین علی رضا پناہیان کا چینل تو کو دیا گایا انٹریو سے چہلم میں پیدل چلنے کی عصری تاریخ ، زیارت کی اہمیت وفلسفہ اور چہلم امام حسین (علیہالسلام ) کے شعایر الہی ہونے کی وجوہات وغیرہ پر مشتمل اہم اقتباسات قاریئن محترم کی خدمت میں پیش کیا جاتاہے ۔

چہلم کے لیے پیدل چلنے کا سلسلہ کہاں سے شروع ہوا ؟

سیکٹریری : اس پروگرام میں ہم بطور خاص چہلم کی پیادہ روی کے بارے میں بات کریں گے ،پہلے یہ بتائیے کہ چہلم میں پیدل چلنے کا سلسلہ کہاں سے شروع ہوا؟ اس پیادہ روی کا فلسفہ کیا ہے ؟ کیا اس کے پیچھے کوئی روایت ہے یا یہ صرف ایک دکھانے کی چیز ہے کہ جو پچھلے چند سال سے شروع ہوئی ہےاور خدا کا شکر ہے کہ اس جوش و خروش میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے ؟

استاد پناہیان :" بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ" ۔محمد و آل محمد (علیہم السلام) پر درود اور ان تمام شہیدوں کی یاد کے ساتھ کہ جنہوں نے اس راستے کو ہمارے لیے کھولا ۔ اجازت دیں کہ پہلے میں چہلم کی روایت کے بارے میں اصل روایت ،اور اس کی شرح جو آیت  اللہ العظمی بہجت نے اس سلسلے میں بیان کی ہے اس کی جانب اشارہ کر دوں ۔

البتہ ہماری تاریخ میں امام حسین علیہ السلام کے حرم کی جانب پیدل جانے کا سلسلہ شیخ انصاری (رح)(متوفی 1281 ہجری)کے زمانے سے شروع ہواتھا ۔اس کے بعد ایک مدت کے لیےترک ہو گیا۔اور عالم جلیل القدر جناب محدث نوری ۔بڑے بڑے علماء اس عالم بزرگوار کو پہچانتے ہیں ۔ انہوں نے اس کام کو جاری رکھا ،اور ان کے بعد تقریبا اس کا سلسلہ بند نہیں ہوا ہے ۔عزاداری اور پیدل جانے کے سلسلے کے محدود اور ممنوع ہو جانے کے بعد ،نجف کے علماء اور کچھ شیعوں نے پیدل جانے کے سلسلے کو جاری رکھا ،لیکن اتنے بڑے پیمانے پر نہیں کہ جیسا آجکل ہے ۔حضرت امام  خمینی رہ کے بارے میں بھی پیادہ روی نقل کی گئی ہے۔اسی طرح بعض موجودہ مراجع نے  بھی (کہ خدا ان کو سلامت رکھے)  اپنی پیادہ روی کو نقل کیا ہے ۔یعنی گذشتہ صدی میں اور اس سے پہلے کے ایام میں پیادہ روی  کو علماء کی سیرت بتایا گیا ہے ۔

اصل زیارت کی خاطر پیدل جانے کے بارے میں متعدد روایات نقل ہوئی ہیں

زیارت کی خاطر پیدل جانے کے بارے میں جیسا کہ خانہء خدا کی زیارت کے لیے پیدل جانے کے بارے میں متعدد روایات پائی جاتی ہیں

یہاں تک کہ وہ روایات جو حرم کی جانب پیادہ روی اور زیارت کر کے واپسی کے بارے میں ہیں ،اور حرم سے واپسی پر پیادہ روی کا ثواب ان میں زیادہ بتایا گیا ہے ،وہ بھی نقل ہوئی ہیں ۔" جو شخص پیدل امیر کاینات (علیہ السلام) کی زیارت کریں خدا اسے ایک حج اور ایک عمرہ کا ثواب عطاکرتا ہے اور جو شخص پیدل واپس جائے اسے دو حج اور دو عمروں کا ثواب عطاکرتا ہے (1) " اسی طرح حرم امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لیے پیدل جانے کے بارے میں بھی ہمارے پاس متعدد روایات ہیں (منجملہ ؛ کامل الزیارات /ص ۱۳۴ ) اور اربعین کی زیارت کے لیے بھی جداگانہ روایات موجود ہیں ۔یہاں پر ہم چہلم کی زیارت کے بارے میں جو روایت امام حسن عسکری علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے ،اس کی شرح میں آقائ بہجت رہ کے کلمات کی جانب اشارہ کر رہے ہیں ۔

آیت اللہ بہجت (رہ) کی زبانی چہلم کی زیارت کی حدیث کی شرح

یہ حدیث چہلم میں پیدل جانے کے بارے میں ہے یا چہلم کی زیارت کے بارے میں ؟

یہ روایت چہلم کی اصل زیارت کے بارے میں ہے  لیکن اس روایت کی شرح میں جو توضیح آقائ بہجت (رہ) نے پیش کی ہے اس سے پیدل جانے کا مفہوم  بھی بخوبی سمجھ میں آجاتا ہے ۔

یہ کہ آپ نے کہاں اس حدیث شریف کی  شرح بیان کی تھی اس کی اپنی ایک دلچسپ اور یادگار داستان ہے ،اور مناسب ہے کہ جمہوریء اسلامیء کا ٹی وی اپنے انہی اچھے  پروگراموں میں ایک بار مستقل طور پر آیت اللہ العظمی بہجت (رہ) کے اس پیغام کی تشریح بیان کرے ۔اس چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ آپ بہت کم پیغام دیتے اور بات کرتے تھے ،ان کے پیغام یا بیان کی مناسبت کہ جس میں آپ نے امام حسن عسکری علیہ السلام کی حدیث کی شرح بیان کی ہے ،حضرت معصومہ (سلام اللہ علیہا) کے گنبد کی تعمیر نو تھی ۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ گنبد کا واقعہ کیا تھا ؟ آپ نے حضرت معصومہ کے حرم کے سابقہ متولی سے بارہا کہا تھا کہ یہ گنبد پرانا ہو چکا ہے اس کی مرمت کریں ، یہ بات کہ آقائ بہجت (رہ) اس بات کی تاکید کرتے تھے حرم کے متولی کے لیے بہت دلچسپ تھی ۔حرم کے متولیء محترم نے مجھ سے فرمایا تھا : میں آقائ بہجت (رہ) کی خدمت میں پہنچا اور عرض کی کہ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں ،آپ نے فرمایا : ،خدا دے گا ، لہذا آقائ بہجت (رہ) کی تاکید کی بنا پر بھاری مقدار میں سونا لگا کر حرم حضرت معصومہ (سلام اللہ علیہا) کے گنبد کی تعمیر نو کی گئی اور یہ فضا وجود میں لائی گئی کہ جس کو آج زائرین محترم اور مجاورین دیکھ رہے ہیں ۔ اس کے باوجود کہ آقائ بہجت سختی کے ساتھ ایسے کاموں میں مداخلت کرنے سے کہ جو ان سے متعلق نہیں ہیں پرہیز کرتے تھے ۔ یہاں تک کہ بسا اوقات بہت سارے لوگ ضروری سمجھتے تھے ،لیکن اگر وہ خود احساس کرتے ہوں کہ دوسرے لوگ اس کام کو کرنے کے لیے موجود ہیں ،تو وہ خود اس میں مداخلت نہیں کرتے تھے (2) ۔

آیت اللہ بہجت (رہ) : شعائر الہی کی تعظیم دوسروں کے دلوں میں تقوے کو مستحکم کرتی ہے /چہلم کی زیارت شعائر الہی کی تعظیم کا مصداق ہے ۔

لیکن پہلے آپ نے گنبد کی مرمت کے موضوع کو چھیڑا اور اس کے بعد اس گنبد کے افتتاح کے لیے ایک پیغام لکھا ،جس کو قرآن کی اس آیت سے شروع کیا : «وَ مَنْ يُعَظِّمْ شَعائِرَ اللَّهِ فَإِنَّها مِنْ تَقْوَى الْقُلُوب» ( 3) اس کے بعد وضاحت فرماتے ہیں کہ ہر قسم کا تقوی قلب سے مربوط ہے ،لیکن کیوں شعائر اللہ کو قلب کا تقوی شمار کیا گیا ہے ؟آپ فرماتے ہیں : جسم ایک نوکر کی مانند ہے ،اور شعائر کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ تقوے کو دوسروں کے دلوں میں مستحکم کرتے ہیں ، یعنی یہ کام جو آپ کر رہے ہیں یہ دوسروں کے دلوں میں تقوے کے استحکام کا باعث بنے گا ،اور یہ " وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعائِرَ اللَّهِ فَإِنَّها مِنْ تَقْوَى الْقُلُوب " کا مصداق ہے ۔

اس کے بعد آپ بعنوان مثال امام حسن عسکری علیہ السلام  کی اس روایت کو کہ جو  وسائل الشیعہ اور دیگر کتابوں میں آئی ہے ،بیان فرماتے ہیں کہ : پانچ چیزیں مومن کی علامت ہیں ،پہلی ،شب و روز میں پچاس رکعت نماز ، دوسری ، چہلم کی زیارت ، اور باقی تین چیزیں ۔:" عَلَامَاتُ الْمُؤْمِنِ خَمْسٌ‏ صَلَاةُ الْخَمْسِينَ وَ زِيَارَةُ الْأَرْبَعِينَ‏ وَ التَّخَتُّمُ فِي الْيَمِينِ وَ تَعْفِيرُ الْجَبِينِ وَ الْجَهْرُ بِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ (4)

آئمہء ھدی (علیہم السلام) نے ارادہ فرمایا تھا کہ بڑی تعداد میں شیعہ چہلم کے موقعے پر کربلا جائیں

میں یہیں پر آقائ بہجت کے کلام کی تکمیل سے پہلے ایک وضاحت کرتا چلوں ۔اس وقت آپ اس کو نہایت آسانی کے ساتھ اور بطور ملموس احساس کر سکتے ہیں ۔جمہوری اسلامی ایران  کے حکام کہ جن کی گفتگو پر بہت ساروں کی نظر رہتی ہے ،جیسے  حضرت  امام خامنہ ای(مدظلہ العالی) ، حضرت امام خمینی (رہ) ،جانتے ہیں کہ اگر ایک اشارہ کر دیں تو بہت سارے لوگ آپ کے کلام سے متائثر ہو کر ہر کام کرنے کو تیار ہو جائیں گے ۔یقینا امام حسن عسکری علیہ السلام کو اس کی کئی گنا زیادہ خبر تھی ،اور آپ جانتے تھے کہ جب یہ کہہ دیں گے کہ شیعوں کی علامت ،چہلم کی زیارت ہے ،تو کل یعنی مستقبل میں یہاں دو کروڑ لوگ جمع  ہوں گے ،چونکہ شیعوں اور مومنین میں سےکوئی ایک بھی نہیں چاہتا کہ اس توفیق کو کھو دے ۔۔

میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ تمام آئمہء  ھدی (علیہم السلام) اس کو جانتے تھے اور سب نے یہ ارادہ کیا تھا ،یعنی نہ صرف جانتے تھے بلکہ ارادہ بھی کیا تھا ۔ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک حکیم شخص ایک بات کہے اور اس بات کے خاص عوارض اور لوازم سے واقف  ہولیکن اس کا اسنے ارادہ نہ کیا ہو ،یعنی ایسا نہیں تھا کہ کہیں ۔ کہ ہم سب کہتے ہیں کہ لوگ چہلم کی زیارت کے لیے جائیں لیکن کتنے جائیں گے اس سے ہمارا کوئی سرو کار نہیں !جب یہ فرماتے ہیں کہ مومن کی علامت ہے ،تو طبیعی بات ہے کہ مومنین کربلا میں امڈے چلے آئیں گے ،خاص کر مومنین محرم کے ایک عشرے کے بعد ،حضرت امام حسین علیہ السلام کے لیے ایک چہلم کی عزاداری کے بعد کہ جنہوں نے انشاء اللہ امام حسین علیہ السلام کی عزاداری میں ایک کمال حاصل کیا ہے ۔

آئمہ ھدی (علیہم السلام) نے چہلم کو ایک زمانی اور مکانی وعدہ گاہ میں تبدیل کر دیا ہے ۔

بہت خوب آئمہء ھدی (علیہم السلام) نے اش اشارے کے ساتھ چہلم کو ایک زمانی اور مکانی وعدہ گاہ میں تبدیل کردیا ہے ،میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جس زمانے میں امام حسن عسکری علیہ السلام نے یہ فرمایا تھا ،تب ان کے مد نظر آج کی دو کروڑ افراد کی زیارت تھی اور یہی ان کا ارادہ بھی تھا بالکل اسی طرح کہ جیسے حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا ) عاشوراء کے دوسرے دن جب امام زین العابدین (علیہ السلام) کے چہرے پر بھاری غم کے آثار دیکھے تو تسلی دیتے ہوئے آپ سے فرمایا تھا کہ یہاں بڑی تعداد میں عزادار آئیں گے اور یہ عاشقان حسین (علیہ السلام) کی زیارت کا مقام ہو گا  جس طرح اس دور میں زینب کبری (سلام اللہ علیہا) اور دیگر معصوم اماموں علیہم السلام نے اس مستقبل کے بارے میں خبر دی تھی ،طبیعی بات ہے کہ ان کی توجہ اس مسئلے پر بھی تھی ۔

آقائ بہجت (رہ) نے مذکورہ بالا  روایت کی شرح میں فرمایا : چہلم کی زیارت "بسم اللہ الر حمن الرحیم "کو بلند آواز سے پڑھنا ،دائیں ہاتھ میں انگوٹھی  پہننا  ان سب کی ایک مشترک خصوصیت ہے کہ یہ چیزیں آپ کے دینی موقف کو ظاہر کرتی ہیں ،پس یہ سب چیزیں "جو شخص شعائر الہی کی عتظیم کریں اسکے متقی ہونے کی دلیل ہے کے مصادیق ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

(1) مَنْ‏ زَارَ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ ع مَاشِياً كَتَبَ‏ اللَّهُ‏ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ حَجَّةً وَ عُمْرَةً فَإِنْ رَجَعَ مَاشِياً كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ حَجَّتَيْنِ وَ عُمْرَتَيْن) وسائل الشیعہ ج۱۱ ص  ۸۰

 (2) (رسا نیوز / خبر کوڈ ؛ ۲۳۵)۰۰۲

(3) حج/ ۳۲

 (4) ؛ تھذیب الاحکام /۵۲/۶

(5) وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعائِرَ اللَّهِ فَإِنَّها مِنْ تَقْوَى الْقُلُوب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

http://newsnoor.com/PrintContent/31193

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
10 + 6 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 64