عاشورا، ظلم، ظالم، باطل اور یزیدیت کے خلاف انقلاب کا آغاز تھا۔ امام حسین (ع) نے یزید سے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ مجھ جیسا تجھ جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا، یعنی جب بھی یزیدیت سر اٹھائے گی تو حسینیت اس کے مقابلے میں ڈٹ جائے گی، جب بھی یزیدیت اسلام کو چیلنج کرے گی تو حسینیت اسلام کو سربلند رکھے گی اور یزیدیت کو نابود کرے گی، اور اگر ایسا ہر زمانہ میں ہوجائے تو سماج اور معاشرہ میں ہمیشہ امن و امان باقی رہے گا۔
اسلام ابتدا سے اب تک شدت پسندی اور دہشتگردی جیسے الزامات کا شکار رہا ہے خاص کر دور حاضر میں اسلام کو ایک شدت پسند مذہب مشہور کرکے اسے بدنام کرنے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے جس کی بعض وجوہات اسلام سے بعض فرقوں کی دشمنی ہے اور بعض کوتاہیاں اور نادانیاں خود مسلمانوں کی طرف سے ہیں ۔جبکہ اصول یہ ہے کہ کسی بھی مذہب کو سمجھنے کے لئے اس کے ماننے والوں کو نہیں بلکہ اس کی تعلیمات کو اس کے لانے والوں کو اور اس کی مقدس کتاب کو دیکھا جاتا ہے۔
چنانچہ اگر اسلام کی تعلیمات،اس کے راہنماؤں اوراس کی کتاب مقدس کو دیکھا جائے تو یہی نتیجہ سامنے آئے گا کہ اسلام امن آتشی اور صلح کا مذہب ہے اسلام کی تعلیمات انسان کو دہشت پھیلانے کی نہیں بلکہ دنیا میں امن و امان قائم رکھنے کی طرف ابھارتی ہیں ۔قرآن ایک ایسا آئین زندگی ہے جو انسان کو صلح،دوستی،پیار،محبت،بھائی چارے اور اس طرح کے انسانی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرنے کی ہدایت کرتا ہے ، جیسا کہ قرآن میں صاف لفظوں میں اعلان ہے: ووَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ ءَامَنُواْ مِنكمُْ وَ عَمِلُواْ الصَّلِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فىِ الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لهَُمْ دِينهَُمُ الَّذِى ارْتَضىَ لهَُمْ وَ لَيُبَدِّلَنهَُّم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنىِ لَا يُشْرِكُونَ بىِ شَيًْا وَ مَن كَفَرَ بَعْدَ ذَالِكَ فَأُوْلَئكَ هُمُ الْفَاسِقُون،، الله نے تم میں سے صاحبان ایمان و عمل صالح سے وعدہ کیا ہے کہ انہیں روئے زمین میں اسی طرح اپنا خلیفہ بنائے گا جس طرح پہلے والوں کو بنایا ہے اور ان کے لئے اس دین کو غالب بنائے گا جسے ان کے لئے پسندیدہ قرار دیا ہے اور ان کے خوف کو امن سے تبدیل کردے گا کہ وہ سب صرف میری عبادت کریں گے اور کسی طرح کا شرک نہ کریں گے اور اس کے بعد بھی کوئی کافر ہوجائے تو درحقیقت وہی لوگ فاسق اور بدکردار ہیں(نور/55)[1]
بے شک اسلام ایک صلح پسند اور امن و امان کا مذہب ہے اور اس کی سب سے بڑی دلیل واقعہ کربلا ہے لیکن بعض نادانوں نے امام حسین علیہ السلام کی ذات گرامی کو بھی اس الزام سے بدنام کرنے کی کوشش کی کہ حسین علیہ السلام فساد پھیلانے کے لئے نکلے تھے جبکہ امام حسین علیہ السلام نے مدینہ سے نکلنے سے پہلے ہی اس خیال کی تردید کردی تھی اور فرمایا تھا کہ و اِنّى لَمْ أَخْرُجْ أَشِرًا وَلا بَطَرًا وَلا مُفْسِدًا وَلا ظالِمًا وَإِنَّما خَرَجْتُ لِطَلَبِ الاِْصْلاحِ فى أُمَّةِ جَدّى، أُريدُ أَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَأَنْهى عَنِ الْمُنْكَرِ وَأَسيرَ بِسيرَةِجَدّى وَأَبى عَلِىِّ بْنِ أَبيطالِب،،[2] میں ظلم و جور ،بغاوت اور فساد کے لئے نہیں نکلاہوں بلکہ امت محمدی کی اصلاح، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے قیام اور اپنے بابا علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی سیرت کو زندہ کرنے کے لئے نکلا ہوں۔
دوسرے مقام پر اپنے قیام کو امن و آشتی کا پیغام قرار دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:اے میرے پالنے والے تو جانتا ہے کہ میرے قیام کا ہدف مال و متاع نہیں ہے بلکہ میں تیرے دین کی حفاظت ،تیرے ملک (سماج و معاشرہ)کی اصلاح، تیرے ان عبادت گزار مظلوم بندوں کی امن و امان کا سامان فراہم کرنا جو تیرے فرائض ، سنت اور احکام پر عمل کرتے ہیں۔[3]
امام حسین علیہ السلام کربلاکے میدان میں یزیدی لشکر کے سامنے ضرور آئے،انہوں نے جنگ ضرور کی،لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ حسین جنگ طلب تھے اس لئے انہوں نے قیام کیا۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر آپ کعبہ سے کربلا تک نگاہ ڈالیں تو آپ کو جگہ جگہ یہی ملے گا کہ امام حسین علیہ السلام نے پوری کوشش کی کہ فساد نہ ہونے پائے امن وامان قائم رہے ۔
کربلا کی جنگ جسموں اور ظاہری انسانوں کے درمیان نہیں تھی بلکہ یہ جنگ اہداف و نظریات کی جنگ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ یزید ہار گیا اور امام حسین علیہ السلام شہید ہونے کے بعد بھی کامیاب و کامران ہو گئے، سیدالشہداء اور آپ کے انصار و اعوان کی مظلومانہ شہادت نے پورے اسلامی معاشرے میں بیداری کی لہر پیدا کر دی، اسلامی رگوں میں تازہ خون گردش کرنے لگا، مظلوموں اور ستمدیدہ لوگوں پر چھایا ہوا سکوت توڑ دیا، ظالموں اور جابروں کے خلاف آوازیں بلند کرنے کی ہمت ملی، لوگوں کے ذہنوں کو بدل ڈالا اور ان کے سامنے حقیقی اورخالص اسلام کا تصور پیش کیا۔ یہ تصادم اور یہ جنگ اگرچہ ظاہری طور پر ایک ہی دن میں تمام ہو گئی، لیکن طول تاریخ میں ہمیشہ اس کے ایثار و برکات ظاہر ہوتے گئے اور جوں جوں تاریخ آگے بڑھتی گئی اس کے نتائج سامنے آتے رہیں گے۔
عاشورا، ظلم، ظالم، باطل اور یزیدیت کے خلاف انقلاب کا آغاز تھا۔ امام حسین علیہ السلام نے یزید سے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ و مثلی لا یبایع مثله،،[4] مجھ جیسا تجھ جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا، یعنی جب بھی یزیدیت سر اٹھائے گی تو حسینیت اس کے مقابلے میں ڈٹ جائے گی، جب بھی یزیدیت اسلام کو چیلنج کرے گی تو حسینیت اسلام کو سربلند رکھے گی اور یزیدیت کو نابود کرے گی، یہی وجہ ہے کہ عاشورا کے بعد مختلف ظالم حکمرانوں کے خلاف متعدد انقلاب رونما ہوئے اور کامیابی سے بھی ہمکنار ہوئےاس لئے کہووإِنَّ لِقَتْلِ الْحُسَيْنِ حَرَارَةً فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ لَا تَبْرُدُ أبَدا،،[5] لیکن قائم وہی رہے، جن کی اساس اسلام و درس کربلا و حسینیت تھا۔
انقلاب اسلامی کی کامیابی اور اس کی ثابت قدمی کے ساتھ ارتقاء اس بات کی دلیل ہے کہ اس کی اساس کربلا اور عاشورہ کے ابدی پیغام پر ہے، کربلا حریت پسندی، جوانمردی، شجاعت اور حق کی نصرت کا درس دیتی ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ گروہ جو استبدادی فکر و فلسفہ کے حامل ہوتے ہیں وہ کربلا اور درس کربلا سے خوف میں مبتلا رہتے ہیں، کیونکہ کربلائی فکر انکے استبدادی نظام کو ڈھا سکتی ہے۔ جب بھی کوئی کربلا و حسینیت کو اساس بنا کر ظلم اور استبداد کے خلاف اٹھے گا کامیابی اسکے قدم چومے گی۔
لیکن وائے ہو ان مسلمانوں پر جن کی تعداد تو بہت ہے لیکن وہ نہ تو کربلا سے کوئی درس لیتے ہیں اور نہ ہی عاشورہ ان میں حرارت پیدا کرتا ہے، وہ صرف تماشائی بنے ہوئے ہیں، انکو بھیڑ بکریوں کی طرح جو بھی چاہتا ہے اور جس طرف چاہتا ہے، ہانک کر لے جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
[1] امن سے متعلق ان آیات کی طرف بھی رجوع کرسکتے ہیں: انعام/81و 82، قريش/3و4،نحل/112 ۔
[2] مکاتیب الائمہ علیھم السلام، ج۳، ص۱۱۳، احمدى ميانجى، على، دار الحديث، قم، 1426 ق۔
[3] بحار الانوار، ج97، ص80، مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى،دار إحياء التراث العربي،بيروت، 1403 ق۔ ووأَللّهُمَّ إِنَّكَ تَعْلَمُ ما كانَ مِنّا تَنافُسًا فى سِلْطان وَلاَاِلْتماسًا مَنْ فُضُولِ الْحُطامِ وَلكِنَّ لِنَرُدَّ الْمَعالِمَ مِنْ دينِكَ وَنَظْهِرَ الاِْصْلاحَ فى بِلادِكَ وَيَأْمَنَ الْمَظْلُومُونَ مَنْ عِبادِكَ ويُعْمَلَ بِفَرائِضِكَ وَسُنَنِكَ وَأَحْكامِكَ،،
[4] بحار الانوار، ج44، ص325، مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى،دار إحياء التراث العربي،بيروت، 1403 ق۔
[5] مستدرک الوسائل، ج10، ص 318، نورى، حسين بن محمد تقى، مؤسسة آل البيت عليهم السلام، قم، 1408 ق۔
Add new comment