خلاصہ: چور کے ہاتھ کہاں سے کاتنا چاہئے امام محمد تقی(علیہ السلام) نے اس کے بارے میں حکم فرمایا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مناقب ابن شھر آشوب اور ارشاد مفید میں ہے کہ معتصم عباسی کے زمانے میں ایک شخص نے چوری کی تھی، اس شخص کو پکڑ کر معتصم کے دربار میں پیش کیا گیا، اس وقت امام محمد تقی(علیہ السلام) اور اہل سنت کے بزرگ علماء اس کے دربار میں موجود تھے، چور نے چوری کا اقرار کر لیا، معتصم نے علماء سے پوچھا اس پر حدّ کس طرح جاری کی جائے؟ ان میں سے بعض نے کہا:
ہتھیلی کے اوپر کے حصہ سے اسے کاٹنا چاہئے، معتصم نے پوچھا کس دلیل کی بناء پر، انھوں نے کہا تیمم کی اس آیت کی بناء پر: «فَتَیمَّمُوا صَعِیدًا طَیبًا[سورۂ مائدہ، آیت:۶] پاک مٹی سے تیمم کرلو»، کیونکہ اس آیت میں ہاتھ سے مراد ہتھیلی ہے، بعض علماء نے کہا: ہاتھ کو کہنی سے کاٹنا چاہئے کیونکہ وضو کی آیت: «فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ[سورۂ مائدہ، آیت:۶] اپنے چہروں کو اور کہنیوں تک اپنے ہاتھوں کو دھوؤ»، ہاتھ سے مراد کہنی ہے، اور بعض نے کہا: ہاتھ کو بازو سے کاٹنا چاہئے کیونکہ عرف میں ہاتھ کا اطلاق بازو سے انگلیوں تک ہوتا ہے۔
اس طرح بحث ہوتی رہی، امام(علیہ السلام) خاموش بیٹھے ہوئے تھے، معتصم نے امام(علیہ السلام) سے پوچھا کہ آپ بتائیے، امام(علیہ السلام) نے فرمایا: ان لوگوں نے کہہ دیا ہے، معتصم کے اصرار پر امام(علیہ السلام) نے فرمایا: یہ سب لوگ غلط کہہ رہے ہیں، چور کی صرف انگلیاں کاٹنا چاہئے۔
معتصم نے کہا کیوں، امام(علیہ السلام) نے فرمایا: کیونکہ خداوند عالم نے فرمایا: «أَنَّ الْمَساجِدَ لِلَّهِ فَلا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَداً [سورۂ جن، آیت: ۱۸]اور مساجد سب اللہ کے لئے ہیں لہذا اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا»، تمام سجدہ کے اعضاء اللہ کے لئے ہے کسی کو بھی ان پر حق نہیں ہے، اگر چور کے ہاتھ کاٹ دیے جائے تو وہ نماز کیسے پڑھیگا۔
امام(علیہ اسلام) کے استدلال کو معتصم نے قبول کیا اور چور کی انگیاں کاٹنے کا حکم دیا۔[ترجمه مجمع البيان فى تفسير القرآن، ج۲۵،ص۲۸۶]
* مترجمان، ترجمه مجمع البيان فى تفسير القرآن، ج۲۵،ص۲۸۶،انتشارات فراهانى - تهران، ۱۳۶۰ ش۔
Add new comment