من کلام لہ صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم: « الدال علی الخیر کفاعلہ»
یہ حدیث اچھا مشورہ دینا اور ہمدردی کے ساتھ مشورت دینے کی اہمیت کو نشاندہی کرتی ہے۔
اگر کوئی شخص کسی کو نیک کام کی طرف مشورت دے، تو اسی شخص کی طرح ہے جو اس نیک کام کو انجام دے رہا ہے،
یعنی جتنا اجر، ثواب، رحمتیں اور برکتیں انجام دینے والے کو ملتی ہیں، مشورہ دینے والے کوبھی اتنا ہی اجر، ثواب، رحمتیں اور برکتیں ملیں گی۔
تو اس بات کی اہمیت بیان ہو رہی ہے کہ اچھا مشورہ دینے والے کا کیا مقام ہے، اب اگر آپ کسی کو مشورہ دے رہے ہیں یا کسی کو کسی نیک کام کے لئے ترغیب کر رہے ہیں
تو یہ کام اللہ تعالیٰ کے نزدیک کتنا اجر اور ثواب کا حامل ہے۔
اس بات کی بے قدری نہیں کرنا چاہیے، اگر یہ بات معاشرہ میں گہرے اور بنیادی طور پر برقرار ہوجائے تو معاشرہ اور لوگوں کی زندگیوں میں ایک عظیم تبدیلی واقع ہوگی،
یہی بات کہ اگر آپ خود ایک اچھا کام انجام دے سکتے ہیں تو کریں، اور اگر آپ خو اس کام کو انجام نہیں دے سکتے، اور اس کو انجام دہی پر قادر نہیں ہیں، یا قانونی طور پر اس کو انجام دہی پر طاقت نہیں دے سکتے تو جو وزیر ہے، یا منیجر ہے یا کسی عہدہ پر فائز ہے یا وہ ایسے افراد میں ہو جس کے پاس وسائل موجود ہوں اور اس کام کو انجام دے سکتا ہو تو اس اچھے کام کو اچھے طریقہ سے اس پر غور کر کے اس کو اس شخص تک پہنچاسکتے ہیں۔
اسی مشورہ یا ان کو انجام دہی کے لوازمات کو فراہم کرنا، اس کو انجام دینے کے برابر ہے۔
اس کا مدمقابل بھی موجود ہے کہ:« الدالّ علی الشر کفاعلہ»
یعنی برے کام کی طرف رہنمائی کرنا، اس کو انجام دینے والے جیسا ہے۔
اگر چہ اس حدیث میں نہیں ہے لیکن شاید دوسری روایات سے اس بات کو لیا جاسکے کہ اگر انسان کسی کو کسی غلط کام، یا گناہ، یا نقصاندہ کام پر اکساتا ہے،
جیسا کہ ہوتا بھی ہے کہ کچھ لوگ دوسروں کو دنیاوی ناپاک مقاصد کے لئے غلط کاموں کے راستے اور طور طریقے بتاتے ہیں، یہ بھی انہیں میں سے ایک ہے۔
Add new comment