مشورہ کس سے کرنا چاہئے

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: بے شک اسلام انسان کی فلاح و بہبودی کے لئے آیا ہے، اس دین میں وہ تمام قوانین ملتے ہیں جس سے انسان کامیابی سے سرخ رو ہوتا ہے اور شرمندگی سے بچتا ہے، انھیں قوانین میں سے ایک مشورہ ہے جس کے ذریعہ انسان ہمیشہ کامیابی کی طرف گامزن رہتاہے مگر اسلام نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ مشورہ ان افراد سے کرے جو واقعی عالم، امین، مخلص اور خیر خواہ ہیں۔

مشورہ کس سے کرنا چاہئے

یہ بات  اظہر من الشمس ہے کہ مشورہ ایسے امور میں کیا جاتا ہے کہ جن امور میں ایک طرف منفعت کا پہلو ہوتا ہے تو دوسری طرف نقصان اور خسارہ کا ، ایک طرف سعادت کا پہلو ہوتا ہے تو دوسری طرف شقاوت و بد بختی کا ، اسی لئے اسلام میں ایسے امور میں مشورہ کرنے کی نہایت تاکید ملتی ہے مگر دوسری جانب اسلام نے مستشیر (مشورہ لینے والے )کو اس بات کی طرف بھی متوجہ کیا ہے کہ وہ اپنے اہم امور میں ہر کس و ناکس سے مشورہ نہ کرے بلکہ ان سے مشورہ کرے جو امور مشاورہ میں کاملا آگاہی ، عقل و تجربہ سے سرشار اور امین و خیر خواہ ہو کیونکہ بعض اوقات ان میں کمزوری کے پہلو ہوتے ہیں جن کی بنا پر ان کا مشورہ بد بختی اور پسماندگی کا سبب بن سکتا ہے، چنانچہ مقالہ ھذا کی تنگی کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم ان چند موارد کو قارئین کی خدمت میں ذکر کریں گے کہ جن سے مشورہ کرنا بہتر ہے اور روایات میں بھی ان کے ذکر موجود ہیں۔
۱۔ عقلمندوں سے مشورہ کرو: رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ارشادفرماتے ہیں: ” اسْتَشِيرُوا الْعَاقِلَ مِنَ الرِّجَالِ الْوَرِعَ فَإِنَّهُ لَا يَأْمُرُ إِلَّا بِخَيْر وَ إِيَّاكَ وَ الْخِلَافَ فَإِنَّ خِلَافَ الْوَرِعِ الْعَاقِلِ مَفْسَدَةٌ فِي الدِّينِ وَ الدُّنْيَا[1] “دیندار اور با ورع عقلمندوں سے مشورہ کرو(کامیابی ملے گی ) کیونکہ وہ سوائے تمہاری کامیابی اور خیر کے کچھ نہیں چاہیں گے، اور خبردار  انکی مخالفت نہ کرنا ورنہ دنیا و آخرت میں سوائے  شرمندگی کچھ نہیں ملے گا ۔
کسی میں اگر عقل اور تجربہ نہیں ہے تو وہ مشورہ کا اہل بھی نہیں ہے، اگر اس سے مشورہ کیا جائے تو پہلے وہ مشورہ ہی کیا دے گا اور اگر مشورہ دے گا بھی تو اس مشورے سے کیا فائدہ؛ اس لیے مشورہ کے لیے عقلمند، ماہر اور تجربہ کار ہونے کی شرط لگائی گئی ہے۔
۲۔ متقی اور خیر خواہ  سے مشورہ کرو: اسی طرح مشورہ کے لیے ایسے شخص کا انتخاب کیا جائے جو متقی اور خیر خواہ  ہو، جیسا کہ امام صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: ” شَاوِرْ فِي‏ أُمُورِكَ‏ مِمَّا يَقْتَضِي الدِّينُ مَنْ فِيهِ خَمْسُ خِصَالٍ عَقْلٌ وَ عِلْمٌ وَ تَجْرِبَةٌ وَ نُصْحٌ وَ تَقْوَى[2]‏“ اپنے ان اہم امور میں کہ جن میں اسلام نے مشورہ کی اجازت دی ہے، مندرجہ پانچ صفات کے حامل لوگوں سے مشورہ کرو: ۱۔ عقل، صبر و تحمل، تجربہ، خیر خواہی اور تقوی و پرہیزگاری۔
   اسکے علاوہ ایک مقام میں آپ ارشاد فرماتے ہیں: ”شَاوِرْ فِي‏ أَمْرِكَ‏ الَّذِينَ‏ يَخْشَوْنَ‏ اللَّهَ‏ عَزَّ وَ جَل [3]“ ‏اپنے امور میں ان لوگوں سے مشورہ کرو جس میں خوف خدا پایا جاتا ہے یعنی جو متقی ہیں،جس میں اللہ تعالیٰ کا خوف اور عنداللہ جواب دہی کا احساس نہ ہو، اس کے مشورہ پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا، پتہ نہیں اس نے صحیح مشورہ دیا ہے یا نہیں، ممکن ہے کہ اس کے نزدیک دوسری رائے بہتر ہو اور محض نقصان پہنچانے کے لیے اس کو یہ رائے دی ہو، تاکہ مشورہ کرنے والے کو نقصان اور پریشانی میں دیکھ کر ہنسنے اور مذاق کا موقع مل سکے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ پرانے زمانے کا کوئی بغض دل میں چھپا ہوتا ہے اور وہ موقع کی تاک میں رہتا ہے، غلط مشورہ دے کر نقصان پہنچانے میں وہی بدلے کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے؛ لیکن جب آدمی میں اللہ تعالیٰ کا خوف ہوگا تو اس طرح کے احتمالات اور امکان سے دل مطمئن ہوگا، اسی لیے اہل علم نے لکھا ہے کہ مشورہ دینے والے کو دیکھنا چاہیے کہ اس میں ہمدردی کا جذبہ ہے یا نہیں، اگر ہمدردی کا داعیہ نہیں بالخصوص مشورہ لینے والے کے حق میں مشیر کا دل حسد و کینہ اور بدخواہی سے پُر ہو تو اس سے مشورہ ہرگز نہیں لینا چاہیے، اس کا مشورہ سم ِ قاتل سے کم نہیں ہوگا۔
۳۔ صاحبان علم و  دانش سے مشورہ کرو: مشورہ ہمیشہ ایسے شخص سے کرنا چاہیے جس کو متعلقہ معاملے میں پوری بصیرت اور تجربہ حاصل ہو؛ چنانچہ دینی معاملات میں ماہر اور صاحب ِ نظر عالم ِ دین سے مشورہ کرنا چاہیے اور کسی بیماری اور جسمانی صحت کے بارے میں کسی اچھے ڈاکٹر کا انتخاب ہی مفید ہوگا۔ غرض جس طرح کا معاملہ ہے، اسی فن کے ماہرین اور تجربہ کار کا انتخاب کیا جائے؛ کیوں کہ تجربہ کے بغیر صرف عقل کامیابی سے ہمکنار نہیں کرسکتی، گویا مشورہ لینے کے لیے عقل ، علم اور  تجربہ تینوں کا بیک وقت موجود ہونا نہایت ضروری ہے۔ ایک دوسرے کے بغیر صحیح رہنمائی نہیں مل سکتی، اسی لئے ایک مقام پر امام معصوم  حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: ”خَيْرُ مَنْ‏ شَاوَرْتَ‏ ذَوُو النُّهَى وَ الْعِلْمِ وَ أُولُو التَّجَارِبِ وَ الْحَزْمِ[4]
مشیروں میں سب سے بہترین مشیر صاحبان عقل و علم ، تجربہ کار اور صاحبان تدبیرہیں ،حدیث مذکور سے صاف واضح ہوتا ہے  کہ آپ کی نگاہ میں اگر کسی عالم عاقل سے کہ تجربہ کار اور صاحب تدبیر بھی ہے تو یقینا مستشیر (مشورہ لینے والا) کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہو گا لیکن اگر  ان سے ہٹ کر کسی جاہل سے مشورہ کیا تو سوائے ہلاکت کے کوئی اور راستہ نہیں ہے چنانچہ آپ ارشاد فرماتے ہیں جَهْلُ‏ الْمُشِيرِ هَلَاكُ‏ الْمُسْتَشِيرِ[5]. جاہل مشیر ہمیشہ مستشیر کی ہلاکت کا سبب بنتا ہے۔
مندرجہ بالا مطالب سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اولا اسلام کی نگاہ میں ہر کس و ناکس سے مشورہ نہیں کرنا چاہئے۔ ثانیا جس سے مشورہ کررہے ہیں دیکھنا چاہئے کہ کیا وہ عالم، امین، خیر خواہ، تجربہ کار اور صاحب تدبیر ہے کہ نہیں اگر وہ تمام صفات جو اسلام میں بیان کی گئی ہیں ایک مشیر میں ہیں تو اس سے مشورہ کرنا چاہئے تاکہ کامیاب و کامرانی کا سبب بن سکے و گرنہ نہیں۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
[1]  مکارم الاخلاق باب استخارہ، ص319۔طبرسى، حسن بن فضل، الشريف الرضى‏، قم‏، 1412 ق / 1370 ش‏، چاپ چهارم‏۔
[2]  بحار الانوار ج72، ص103، مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى‏،دار إحياء التراث العربي‏،بيروت‏، 1403 ق، چاپ دوم‏۔
[3]  بحار الانوار ج۷۵، ص۲۶۱، مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى‏،دار إحياء التراث العربي‏،بيروت‏، 1403 ق‏، چاپ دوم۔
[4]  مستدرک الوسائل، ج۸، ص۲۴۳، نورى، حسين بن محمد تقى‏، انتشارات مؤسسة آل البيت عليهم السلام‏، بتحقیق مؤسسة آل البيت عليهم السلام‏، قم‏، 1408 ق‏، چاپ اول‏۔
[5]   تصنیف غرر الحکم و درر الکلم ، باب ذم الجھل و الجھالہ، ص۷۳، تميمى آمدى، عبد الواحد بن محمد، محقق / مصحح: درايتى، مصطفى‏، انتشارات دفتر تبليغات‏، قم‏، 1366 ش‏، چاپ اول‏۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
6 + 2 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 54