خلاصہ: عموماً لوگ ظہور کے مقدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے اندازہ لگاتے ہیں کہ ظہور قریب ہے یا دور ہے لیکن جو باتیں روایات میں ملتی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ظہور اس وقت ہوگا جب ظہور کے وقوع سے لوگوں پر ناامیدی چھائی ہوئی ہوگی۔
سم اللہ الرحمن الرحیم
امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کی غیبت ایک عظیم امتحان ہے تا کہ شیعہ اپنے صبر کو اس زمانے کی مشکلات سے سامنا کرتے ہوئے آزمائیں اور خدا کے فرج سے ناامید نہ ہوں لیکن کیا سب مومنین اس عظیم خدائی امتحان میں کامیاب ہوں گے؟
اس سوال کا جو جواب اہل بیت (علیہم السلام) کی روایات میں ملتا ہے وہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بہت سارے شیعوں کا دور غیبت کی مشکلات میں صبر ٹوٹ جائے گا اور امام زمانہ (علیہ السلام) کے ظہور سے ناامید ہوجائیں گے اور دوسرے لفظوں میں ان سے "انتظار فرج" کی حالت زائل ہوجائے گی۔ لیکن اسی دوران مومنین کی تھوڑی تعداد باقی رہے گی جو اپنے امام کی غیبت کے دور میں اپنے فرائض سے بالکل واقف ہونگے اور ان پر عمل پیرا ہونگے لہذا خدائی فرج کے سلسلے میں ناامیدی کا شکار نہیں ہوں گے۔
مگر اہم بات یہ ہے کہ امام زمانہ (علیہ السلام) کے فرج کی شرط، سب لوگوں کا فرج کے لئے منتظر رہنا نہیں ہے۔ فرج کا انتظار ایسا فریضہ ہے جس کا شیعہ غیبت کے زمانے میں دوسرے ہر زمانے سے زیادہ ذمہ دار ہے لیکن خواہ وہ سب ان فریضہ پر عمل کریں اور خواہ اس پر عمل کرنے میں کوتاہی کریں، ظہور واقع ہوگا اور ہم جو ابھی نقل کریں گے اس کے مطابق جب حضرت ظہور فرمائیں گے تو بہت سارے مومنین پر ناامیدی کی حالت چھائی ہوئی ہوگی اور دیگر الفاظ میں جب انہوں نے انتظار کی حالت کھو دی ہوگی، اس وقت ظہور واقع ہوگا۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے یوں نقل ہوا ہے: " ما اَحسَنَ الصَّبرَ و انتظارَ الفرجِ ... فعلیکم بالصَّبرِ. إنما یَجییءُ الفَرَجُ عَلی الیأسِ"[۱] انتظار فرج کے ساتھ صبر کرنا کتنا اچھا ہے … تو تم پر ضروری ہے کہ صبر کرو، اور فرج، ناامیدی کے وقت واقع ہوگا۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے دوسری حدیث میں غیبت کے مشکل امتحان کا تذکرہ فرمایا ہے جس میں بہت سارے لوگ ناکام ہوجائیں گے: "اِنَّ هذا الاَمرَ لا یَأتیکُم إلّا بَعدَ إیاسٍ. لا وَاللهِ حَتّی تُمَیِّزوا. لا وَاللهِ حتّی تُمحَّصُوا"[۲] یہ امر (امام زمانہ علیہ السلام کا ظہور) تمہارے لئے واقع نہیں ہوگا مگر ناامیدی کے بعد، نہیں خدا کی قسم واقع نہیں ہوگا یہاں تک کہ (تمہارا اچھا اور برا آدمی) ایک دوسرے سے الگ ہوجائے، نہیں خدا کی قسم واقع نہیں ہوگا مگر یہ کہ ناخالصی سے پاک ہوجاو۔
ہوسکتا ہے بہت سارے مومنین اپنے آپ کو اچھا اور پاک سمجھتے ہوں لیکن سخت امتحانوں کے موقع پر معلوم ہوجاتا ہے کہ ان میں سے کون اپنے صبر کو محفوظ کرسکتا ہے اور ظہور کے انتظار کو نہیں کھوتا۔
ایک اور حدیث بھی امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے جس میں آپ فرماتے ہیں:
"لا وَاللهِ لا یکونُ ما تَمُدُّونَ اِلیه اَعیُنَکُم حتّی تُغَربَلُوا. لا وَاللهِ لا یکونُ ما تَمُدُّونَ اِلیه اَعیُنَکُم حتّی تُمیَّزُوا. و لا وَاللهِ لا یکونُ ما تَمُدُّونَ اِلیه اَعیُنَکُم إلّا بَعدَ إیاسٍ"۔ "نہیں خدا کی قسم جس چیز کا تم انتظار کررہے ہو وہ واقع نہیں ہوگی یہاں تک کہ غربال کیے جاو، نہیں خدا کی قسم جس چیز کی تم انتظار کررہے ہو وہ واقع نہیں ہوگی یہاں تک کہ (تمہارے اچھے اور برے کو) ایک دوسرے سے الگ کردیا جائے۔ نہیں خدا کی قسم جس چیز کی تم انتظار کررہے ہو وہ واقع نہیں ہوگی مگر ناامیدی کے بعد"۔
غربال ہونا یعنی چھانے جانا۔ غربال کرنے سے باریک دانے نکل جاتے ہیں اور موٹے دانے باقی رہ جاتے ہیں۔ غیبت کے زمانے میں بھی جن لوگوں کا دین کمزور ہے، غربال کے ذریعے گرجائیں گے اور جن کی دینداری زیادہ طاقتور اور مضبوط ہے وہ باقی رہ جائیں گے اور جب بہت سارے مومنین پر فرج الہی سے ناامیدی چھاگئی تو وہ نزول فرج کا موقع ہے۔
بنابریں کہا جاسکتا ہے کہ امام زمانہ (علیہ السلام) کے ظہور سے پہلے نہ صرف وہ مقدمات اور حالات جن سے ظہور کے واقع ہونے کی امید بڑھتی ہے، نہیں پائے جائیں گے بلکہ اس کے برخلاف ہے یعنی بہت سارے مومنین پر ناامیدی کا سایہ چھا جائے گا اور بالکل ایسے حالات میں ظہور ہوگا۔ لہذا انتہائی ناامیدی کے زمانے میں ہر دور سے زیادہ ظہور کا انتظار ہونا چاہیے۔
بنابریں حقیقی مومن ہرگز ظہور سے ناامیدی کا شکار نہیں ہوتا اور باوجودیکہ جب مقدمات اور حالات کو دیکھتا ہے تو انہیں ناامیدی کا باعث سمجھتا ہے لیکن ایسے موقع پر اسے ظہور کے واقع ہونے پر زیادہ سے زیادہ امید ہونی چاہیے۔
جو ان مطالب سے اہم درس حاصل ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ غیبت کے دور کی مشکلات اور سختیوں میں امام زمانہ (علیہ السلام) کے ظہور سے ہرگز ناامید نہیں ہونا چاہیے بلکہ جتنی مشکلات زیادہ سخت اور حالات زیادہ دشوار ہوتے جائیں گے اور زیادہ ناامیدی لوگوں کو گھیر لے گی، اتنا ظہور کا انتظار زیادہ بڑھنا چاہیے۔
البتہ یاد رہنا چاہیے کہ مومن میں ناامیدی کی حالت سب سے بڑے گناہان کبیرہ میں سے ہے اور کسی صورت میں ایسی حالت کو پسند نہیں کرنا چاہیے اور اہل بیت (علیہم السلام) کی احادیث میں جو، ظہور کے وقت کو، لوگوں پر ناامیدی چھا جانے کے قرین سمجھا گیا ہے، یہ اس کے مطلوب ہونے کی نشاندہی نہیں کرتا ، اس کی مثال یہ ہے کہ امام (ع) کے ظہور کے موقع پر ظلم و ستم کا غلبہ ہوگا، یہ بھی مطلوب نہیں ہے اور مومن کو اس پر راضی نہیں ہونا چاہیے۔ اسی لئے ظلم کے غالب رہتے ہوئے بھی مومنین اپنے ایمان پر ثابت قدم رہتے ہیں اور ہرگز عقیدہ اور عمل میں سستی کا شکار نہیں ہوتے اور یہی ایمان پر ثابت قدم رہنے والے لوگ اپنی انتظار کی حالت کو ہمیشہ محفوظ رکھتے ہیں اور ناامیدی میں مبتلا نہیں ہوتے، لیکن ان کی تعداد تمام اہل ایمان کے مقابلہ میں بہت ہی کم ہے۔
............................
حوالہ:
[۱] بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۱۰ ح ۱۷.
[۲] بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۱۱ ح ۲۰۔
Add new comment