خلاصہ: روایات میں ملتا ہے کہ اللہ تعالی امام زمانہ (عج) کے ظہور کو ایک رات میں اصلاح فرمادے گا، اس کے متعلق روایت کی تشریح بیان کی گئی ہے اور اس کا اثر یہ ہے کہ اگر آدمی اس حقیقت کو سمجھ لے تو ظہور کے وقوع کے لئے ہر لمحہ تیار رہے گا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
روایت میں ایک تعبیر بیان ہوئی ہے کہ خداوند حضرت ولی عصر (علیہ السلام) کے امر ظہور کی ایک رات میں اصلاح کردے گا۔ "ایک رات میں اصلاح" سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت کو ظہور کا اذن کسی سابقہ مقدمات کے فراہم ہونے کے بغیر دیا جائے گا اور یہ بات ظہور کے وقت میں بدا حاصل ہونے والی بات کے تناظر میں بالکل قابل قبول ہے۔ حضرت جوادالائمہ (علیہ السلام) فرماتے ہیں: " اِنَّ اللهَ تَبارَکَ و تَعالی لَیُصلِحُ لَه أمرَه فیِ لَیلَةٍ کَما أًصلَحَ اَمرَ کَلیمِهِ موسی(ع) إذ ذَهَبَ لِیَقتَبِسَ لِأَهلِهِ ناراً فَرَجَعَ و هُوَ رَسُولٌ نَبِیٌّ.. .. أفضَلُ اَعمالِ شیعَتِنا انتظارُ الفَرَجِ"[1] بیشک خداوند تبارک و تعالی ان (حضرت مہدی علیہ السلام) کے امر ظہور کی ایک رات میں اصلاح کردے گا، جیسے اپنے کلیم حضرت موسی (علیہ السلام) کے کام کی (ایک رات مین) اصلاح کردی، جب وہ اپنے گھرانے کے لئے آگ لینے گئے تھے تو اس حال میں واپس آئے کہ بھیجے ہوئے نبی تھے ...ہمارے شیعوں کا بہترین عمل فرج کا انتظار کرنا ہے۔
اس روایت میں "ایک رات میں اصلاح" سے مراد یہ ہے کہ امام زمانہ (علیہ السلام) کے ظہور کے لئے بھی اللہ تعالی کا اذن مقدمہ کے بغیر اور جب ظہور کے قریب ہونے پر ظاہری طور پر کوئی علامت نہیں ہوگی، تب ملے گا۔
اگر مومن شخص اس حقیقت پر گہرائی کے ساتھ یقین کرلے تو امام (علیہ السلام) کے فرج کا انتظار اس کے لئے بہت بہت یقینی ہوجائے گا کیونکہ وہ ہر وقت، فرج کے وقوع کو ممکن پائے گا اور کسی حال میں اس کے وقوع سے ناامید نہیں ہوگا۔ اسی لئے حضرت امام جواد (علیہ السلام) نے مذکورہ تشبیہ کے بعد فرمایا ہے: ہمارے شیعوں کا بہترین عمل فرج کا انتظار کرنا ہے۔
لہذا کہا جاسکتا ہے کہ امام عصر (علیہ السلام) کا امر فرج کسی ایسی علامت پر موقوف نہیں ہے جو عام لوگوں کی سوچ کے مطابق ان کے نزدیک ہونے کی نشاندہی، اور اگر ایسا نہ ہوتا تو فرج کا انتظار ہر صبح و شام بے معنی تھا۔
ایک مقدمہ کے ساتھ دوسری حدیث میں یہی بات امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمائی ہے: " کُن لِما لا تَرجُو أرجی مِنکَ لِما تَرجُو. فاِنَّ مُوسَی بنَ عِمرانَ(ع) خَرَجَ لِیَقتَبِسَ لِأَهلِهِ ناراً فَرَجَعَ الیهم وَ هُوَ رسولٌ نَبِیٌّ. فَأَصلَحَ اللهُ تبارَک و تعالی أمرَ عّبدِه و نبیِّه موسی(ع) فی لَیلَةٍ. وَ هکَذا یَفعَلُ اللهُ تَبارَکَ وَ تَعالی بِالقائِمِ الثانی عَشَرَ مِنَ الاَئِمَةِ(ع) یُصلِحُ لَهُ أَمرَه فی لیلةٍ کما أصلَحَ أمرَ نَبّیِّه موسی(ع) و یُخرِجُهُ مِنَ الحَیرَةِ وَ الغَیبَةِ اِلی نُورِ الفَرَجِ و الظُهورِ."[2]
جس چیز (کے وقوع) کی تمہیں امید نہ ہو، اس چیز سے زیادہ امیدوار رہو بہ نسبت اس چیز کے جس (کے وقوع) پر امیدوار ہو، بیشک حضرت موسی بن عمران (علیہ السلام) اپنے گھرانہ کے لئے آگ لینے گئے تو اس حال میں کہ بھیجے گئے پیغمبر تھے ان کے پاس واپس آئے۔ پس خدا نے اپنے عبد اور نبی موسی (علیہ السلام) کے کام کی ایک رات میں اصلاح کی اور خداوند متعال حضرت قائم بارہویں امام (علیہ السلام) کے لئے بھی یوں ہی کرے گا۔ ان کے امر (ظہور) کی ایک رات میں اصلاح کرے گا، جیسے اپنے نبی موسی (علیہ السلام) کے کام کی اصلاح کی، اور آنحضرت کو حیرت اور غیبت سے فرج اور ظہور کے نور کی طرف نکالے گا۔
آدمی بعض اوقات ظاہری قرائن کے لحاظ سے کسی چیز پر امید لگاتا ہے یا انہی قرائن کی بنیاد پر کسی چیز کے وقوع سے ناامید ہوجاتا ہے۔ جو بات اس حدیث شریف سے ملتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر مومن کی امید فرج الہی پر ہے تو ان امور پر جو عادی حالات کے لحاظ سے ان کو انجام دینے سے ناامید ہے، ان کے وقوع پر زیادہ امیدوار رہے بہ نسبت وہ امور جن پر وہ عادی اسباب کے لحاظ سے امیدوار ہے۔ اس ضابطہ کے لئے جو مثال پیش کی گئی ہے وہی حضرت موسی (علیہ السلام) کا نبی بننا ہے۔ آپ کو ظاہری قرائن اور عادمی علامات کے تحت کلیم اللہ اور پیغمبر خدا بننے کی کوئی امید نہیں تھی لیکن جب آگ فراہم کرنے کے لئے گئے تو نبوت کے لئے اللہ نے منتخب کردیا۔
خداوند متعال حضرت امام زمانہ (علیہ السلام) کے بارے میں بھی اسی طرح کرے گا اور آپ کو اس وقت میں ظاہر کرے گا جب ظاہری طور پر آپ کے قیام کی کوئی امید نہیں ہوگی، لہذا امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کے ظہور کی انتظار کے لئے شیعوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ جب انہیں لوگوں کے عام اندازے کے تحت اپنے امام کے ظہور کی کوئی امید نہیں ہوگی تو اس وقت فرج پر زیادہ امیدوار رہیں بہ نسبت اس وقت کے جب ظاہری قرائن کی بنیاد پر اندازہ لگاتے ہیں۔ مومن موحد کی ساری امید فرج الہی پر ہوتی ہے اور جب اللہ تعالی اپنے بندوں پر اپنی رحمت اتارنا چاہے تو عام انسانی مقدمات کے فراہم ہونے کا محتاج نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[1] کمال الدین باب ۳۶ ح ۱.
[2] کمال الدین باب ۶ ح ۱۳ کی انتہا۔
Add new comment