خلاصہ: روایات میں بسم اللہ کہنے کے بعض مواقع بتائے گئے ہیں، ان میں سے چند مواقع کا اس مضمون میں تذکرہ کیا گیا ہے، اس سے بسم اللہ کی اہمیت مزید واضح ہوتی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
۱۔ ہر کام کی ابتدا میں:
حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) سے منقول ہے: "قولوا عِندَ افتِتاحِ كُلِّ أمرٍ صَغيرٍ أو عَظيمٍ: بِسمِ اللّه ِ الرَّحمنِ الرَّحيمِ"، "ہر چھوٹے یا بڑے کام کی ابتدا میں کہو: بسم اللہ الرحمن الرحیم"۔ [التوحيد، ص232،ح5]
اس روایت سے واضح ہوتا ہے کہ ہر کام چاہے کوئی عمل ہو یا بات ہو، چھوٹا کام ہو یا بڑا کام، اس کی ابتدا میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کہنا چاہیے۔
۲۔ ہر کھانے پر:
حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) نے فرمایا: جو شخص اپنے کھانے پر بسم اللہ کہے، میں اس شخص کی ضمانت کرتا ہوں کہ وہ کھانے سے شکایت نہیں کرے گا۔ ابن الکواء نے کہا: یاامیرالمومنین! میں نے صبح ایک کھانا کھایا تو اس پر بسم اللہ کہا حالانکہ اس نے مجھے تکلیف دی، تو حضرتؑ نے فرمایا: شاید تم نے کئی طرح کے کھانے کھائے ہیں تو بعض کھانوں پر بسم اللہ کہا اور بعض پر بسم اللہ نہیں کہا اے لکع۔ [الكافی، ج6، ص295]۔
واضح رہے کہ ابن الکواء خوارج کا سردار تھا۔
۳۔ اگر بھول جائے:
داود ابن فرقد کا کہنا ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے عرض کیا: میں کھانے پر کیسے بسم اللہ کہوں؟ آپؑ نے فرمایا: جب برتن (کھانے( مختلف ہوں تو ہر برتن کے لئے (الگ) بسم اللہ کہو۔ میں نے عرض کیا: اگر بسم اللہ کہنا بھول جاؤں تو؟ فرمایا: کہوگے: "بسم الله على أوله وآخره"، "سب پر بسم اللہ"۔ [فروع من الکافی، ج6، ص295]۔
۴۔ اپنی یاددہانی کے لئے کچھ لکھنے سے پہلے:
حضرت امام علی رضا (علیہ السلام) کے بارے میں روایت ہے کہ جب آپؑ اپنے کاموں کی (اپنے لیے) یاددہانی کو لکھنا چاہتے تو لکھتے: "بسم الله الرحمن الرحيم أذكر إن شاء الله"، اس کے بعد جو لکھنا چاہتے لکھتے۔ [تحف العقول، ج1، ص443]۔
۵۔ سونے سے پہلے:
رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں: جب بندہ سونے کے وقت کہے: "بسم اللہ الرحمن الرحیم" تو اللہ فرماتا ہے: "مَلائِکتى اُكتُبوا بِالحَسَناتِ نَفَسَهُ إلَى الصَّباحِ"، "اے میرے فرشتو! اس کی سانسوں کو صبح تک، نیکیاں لکھو"۔ [جامع الأخبار، ص120، ح218]۔
۶۔ گھر سے باہر نکلتے ہوئے:
حضرت امام علی ابن موسی الرضا (علیہ السلام) فرماتے ہیں: جب میرے باپ (امام موسی کاظم) علیہ السلام اپنے گھر سے باہر تشریف لے جاتے تو فرماتے: "بِسمِ اللّه ِ الرَّحمنِ الرَّحيمِ ، خَرَجتُ بِحَولِ اللّه ِ وقُوَّتِهِ ، لا بِحَولٍ مِنّي ولا قُوَّتي ، بَل بِحَولِكَ وقُوَّتِكَ يا رَبِّ ، مُتَعَرِّضا لِرِزقِكَ ، فَأتِني بِهِ في عافِيَةٍ"۔ [الكافي، ج2، ص542، ح7]۔
۷۔ حج و عمرہ کے سفر پر جاتے ہوئے:
حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "إذا خَرَجتَ مِن بَيتِكَ تُريدُ الحَجَّ وَالعُمرَةَ إن شاءَ اللّهُ، فَادعُ دُعاءَ الفَرَجِ . . . فَإِذا جَعَلتَ رِجلَكَ فِي الرِّكابِ فَقُل : بِسمِ اللّه ِ الرَّحمنِ الرَّحيمِ ، بِاسمِ اللّه ِ وَاللّه ُ أكبَرُ . . ."، "جب ان شاء اللہ حج اور عمرہ کے لئے اپنے گھر سے نکلو تو دعائے فرج پڑھو... تو جب اپنے پاؤں کو رکاب میں رکھو تو کہو: بِسمِ اللّه ِ الرَّحمنِ الرَّحيمِ ، بِاسمِ اللّه ِ وَاللّه ُ أكبَرُ..." [الكافي، ج4، ص284، ح2]۔
....................
حوالہ جات:
الكافی، شیخ کلینی۔
التوحيد، شیخ صدوق۔
تحف العقول، ابن شعبہ حرانی۔
جامع الأخبار، محمد سبزواری۔
Add new comment