بسم اللہ الرحمن الرحیم کو اونچا یا آہستہ پڑھنا

Thu, 12/28/2017 - 20:05

خلاصہ: بسم اللہ الرحمن الرحیم کے سلسلہ میں شیعہ اور اہلسنّت کے درمیان اختلاف ہے کہ کیا بسم اللہ کو اونچا پڑھنا چاہیے یا آہستہ، شیعہ کا اونچے پڑھنے پر اتفاق ہے اور اہلسنّت کے نظریات مختلف ہیں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم کو اونچا یا آہستہ پڑھنا

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اونچا پڑھنے کو جہر کہا جاتا ہے اور آہستہ پڑھنے کو اخفات کہا جاتا ہے۔

سب شیعہ علماء اس بات پر متفّق ہیں کہ "بسم اللہ الرحمن الرحیم" کو نماز کی ابتدا میں پڑھنا واجب ہے اور جہریہ نمازوں میں بسم اللہ کو اونچا پڑھنے کے واجب ہونے اور اخفاتیہ نمازوں میں بسم اللہ کو اونچا پڑھنے کے مستحب ہونے کے بارے میں فتوی دیا ہے۔ [الخلاف فی الفقه، ج۱، ص۱۱۲، مستمسک العروة الوثقی، ج ۶، ص۱۷۵-۱۷۴]

نقل ہوا ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام) نماز میں بسم اللہ کو اونچا پڑھنے پر اصرار کرتے تھے۔ شافعی کی روایت کے مطابق معاویہ نے مدینہ میں ایک نماز پڑھی جس میں بسم اللہ اور رکوع و سجود سے پہلے والی تکبیریں نہ کہیں تو صحابہ نے اس پر اعتراض کیا کہ تم نے نماز کو ہم سے چرا لیا تو معاویہ نے اسی نماز کو بسم اللہ اور تکبیر کے ساتھ دوبارہ پڑھا۔ اہلسنّت کے علامہ فخررازی نے ان دو روایتوں کو دلیل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پیغمبر (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کی سنّت، بسم اللہ کو اونچا پڑھنا ہے۔ [التفسیر الکبیر، ج۱، ص۲۰۴]

ہوسکتا ہے کہ معاویہ نے حضرت علی (علیہ السلام) کے اونچے اور آہستہ پڑھنے کی سیرت سے مطلع ہوکر، الٹ طریقہ اختیار کیا ہو۔

بسم اللہ کو اونچا اور آہستہ پڑھنے کے بارے میں اہلسنّت علماء کا آپس میں اختلاف ہے اور ان کے مختلف نظریات ہیں: شافعی نے بسم اللہ کو چھوڑنا جائز نہیں سمجھا اور اونچی پڑھی جانے والی نمازوں میں بسم اللہ کو اونچا پڑھنا واجب سمجھا ہے، لیکن اخفاتی نمازوں میں بسم اللہ کو اونچا پڑھنا مستحب نہیں سمجھا۔ احمدابن حنبل نے بسم اللہ کو نماز میں واجب سمجھا ہے، لیکن اونچا پڑھنا جائز نہیں سمجھا۔ ابوحنیفہ نے بسم اللہ کو نماز میں چھوڑ دینا جائز سمجھا ہے اور اگر پڑھا جائے تو آہستہ پڑھا جائے اور مالک ابن انس نے بسم اللہ کو نماز میں پڑھنا مکروہ سمجھا ہے سوائے ماہ رمضان میں، کہ دو سورتوں کے درمیان تبرّکاً پڑھا جاسکتا ہے بغیر اس کے کہ سورہ حمد کی ابتدا میں پڑھا جائے۔

امت مسلمہ کے لئے لمحہ فکریہ: ایک ہی مذہب کے اندر اتنے شدید اختلاف کی وجہ کیا ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے شریعتِ اسلام کو رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) اور اہل بیت (علیہم السلام) کے ذریعہ لوگوں تک پہنچایا ہے تو لوگ جس قدر تطہیر کے اِس گھرانہ سے دور ہوتے جائیں گے اور ان لوگوں کی پیروی کریں گے جنہوں نے اس گھرانہ سے دوری اختیار کی تو یقیناً وہ شریعت سے بھی دور ہوجائیں گے، کیونکہ شریعت اِس گھرانہ کے علاوہ کسی اور کو نہیں دی گئی کہ وہ شخص جو کچھ کہے اس کے مطابق لوگوں کو عمل کرنا چاہیے۔

 

لہذا سب مسلمانوں کو چاہیے کہ اُس گھرانہ کی فرمانبرداری اور اطاعت پر متفّق ہوجائیں جن کے طاہر ہونے کی گواہی اللہ نے آیتِ تطہیر میں دی ہے اور کسی شخص نے ان سے کسی قسم کا عیب اور نقص نہیں دیکھا جو ان کی عصمت کو داغدار کرے۔ ان معصوم ہستیوں کی عصمت کی بلندی کجا اور غیرمعصوم افراد کی افکار کجا!

جو لوگ مسلمان ہیں ان کو مسلمان ہونے کا فائدہ تب ہے کہ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) اور آنحضرتؐ کی اہل بیت (علیہم السلام) کی تابعداری، فرمانبرداری اور اطاعت کریں، ورنہ برائے نام مسلمان رہنا کمال نہیں ہے۔ جب صرف بسم اللہ کے اونچے اور آہستہ پڑھنے میں اتنا شدید اختلاف ہو تو دین کے باقی احکام کے بارے میں کتنے اختلافات ہوں گے؟!!

......................

حوالہ:

[الخلاف فی الفقه، محمدبن حسن طوسی، تهران، ۱۳۷۷-۱۳۸۲]

[مستمسک العروة الوثقی، محسن حکیم، نجف ۱۳۸۹/۱۹۶۱، چاپ افست قم، ۱۴۰۴]

[التفسیر الکبیر، فخررازی، قاهره. چاپ افست تهران]

 

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 2 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 111