خلاصہ: امام رضا علیہ السلام اپنے زمانے کے سب سے بڑے زاہد اور متقی تھے آپ نے اپنی زندگی سے زہد کے حقیقی مفہوم کو پیش فرمایا ہے۔
زہدایک اسلامی اور شرعی اصطلاح ہے جس کا تعلق انسان کی ذاتی و اجتماعی زندگی سے ہے۔زہد کا لغوی معنی کسی چیز سے بچنااور رکناہے جبکہ شریعت میں زہد، رضائے خداوندی کے حصول کے لیے دنیوی لذتوں اورمرغوبات سے کنارہ کش ہوجانے کو کہتے ہیں ۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کودنیا کی تمام نعمتوں سے منہ موڑ کر راہبانہ زندگی گزارنے کی تلقین کی ہے یا اس کی حوصلہ افزائی کی ہے،ایسا ہرگز نہیں ہے ،بلکہ زہدکا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کی نعمتوں سے اسی قدرفائدہ اٹھایاجائے جتنا کہ انسان کی زندگی کے لئے ضروری ہے۔
محمد بن عبادہ امام رضا(ع) کی زاہدانہ زندگی کے بارے میں کہتے ہیں: ابوالحسن کا پہناوا چاہے گرمی کا موسم ہو یا ٹھنڈک کا اپنی تمام عظمتوں و وقار کے باوجود ہمیشہ سادہ اور یک نواخت رہتا تھا ہمیشہ سادہ لباس میں زیب تن رہتے مگر جب آپ لوگوں سے ملنےیا ان کے حال دل کو سننے اور دلجوئی کے لئے تشریف لے جاتے تھے تو اچھا لباس زیب تن فرماتے تھے ۔ (كشف الغمه، ج 3، ص 157)
ایک روایت میں ملتا ہے سفیان بن ثوری امام کی زیارت کے لئے گئے راستہ میں امام سے ملاقات ہوئی کیا دیکھا امام اچھا کپڑا زیب تن کئے ہوئے ہیں ، سفیان نے جب امام کو اچھےکپڑوں میں ملبوس دیکھا تو عرض کی مولا جب اچھا کپڑٰا پہننا ہی تھا تو اس سے کم اچھا پہنتے اتنا قیمتی کپڑا پہننے کی کیا ضرورت تھی ؟ امام علیہ السلام نے سفیان کو اندر پہنے ہوئے کپڑے کی طرف کی جو نہایت معمولی اور سادہ سا تھا اشارہ کیا اور فرمایا یہ سادہ لباس میرے خدا کے لئے ہے اور یہ لباس (اچھے کپڑوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے )خلق خدا کے لئے زیب تن کیا ہے۔(المناقب ج۹، ص۳۸۹)
امام رضا علیہ السلام کا زہد اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ باوجود اسکے کہ ولایت عہدی کے مقام پر فائز تھے مگر نہ اس مقام سے پہلے اور نہ یہ دنیوی مقام ملنے کے بعد اپنے شخصی امورکو انجام دینے کے لئے کسی غلام کو حکم دیا ہو، آپ اپنا ہر کام خود انجام دیتے تھے۔آپ اس عہدہ پر فائز ہونے کے باوجود ہمیشہ درباری محفلوں سے پرہیز کرتے تھے ، ان کے اسراف کارانہ امور کی مخالفت کرتے تھے۔
اسی طرح ایک روایت میں ملتا ہے جب آپ کو حمام جانے کی خواہش ہو تی تو کسی غلام کو حکم دیئے بغیر خود سے اپنے حمام کو آمادہ کرتے تھے، اسی طریقہ سے کبھی کبھی لوگوں سے دل جوئی کے لئے عمومی حمام تشریف لے جاتے اور نزدیک سے ان کی باتوں کو سنتے اور اپنے پیغام کو پہنچاتے۔ ( پژوهشی دقیق در زندگی علی بن موسی الرضا ص 59-60)
Add new comment