بسم اللہ الرحمن الرحیم
خطبہ شعبانیہ ماہ رمضان المبارک کی شان و عظمت کے سلسلہ میں ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ماہ رمضان سے پہلے، ماہ شعبان کے آخری جمعہ کو ارشاد فرمایا۔ اس خطبہ کو حضرت امام علی رضا (علیہ السلام) نے اپنے آباء و اجداد سے نقل کرتے ہوئے حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے۔ ان سلسلہ مضامین میں اس خطبہ کے فقروں کی تشریح بیان کی جارہی ہے، جن میں سے یہ چھٹا مضمون ہے۔ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں کہ "ودُعاؤُكُم فيهِ مُستَجابٌ. فَاسأَلُوا اللّهَ رَبَّكُم بِنِيّاتٍ صادِقَةٍ وقُلوبٍ طاهِرَةٍ أن يُوَفِّقَكُم لِصِيامِهِ وتِلاوَةِ كِتابِهِ؛ فَإِنَّ الشَّقِيَّ مَن حُرِمَ غُفرانَ اللّه ِ في هذَا الشَّهرِ العَظيمِ"[1]، "اور اس (مہینہ) میں تمہاری دعا مستجاب ہے، لہذا اللہ سے (کہ جو) تمہارا پروردگار (ہے) طلب کرو سچی نیتوں اور پاک دلوں کے ساتھ کہ وہ تمہیں اس (مہینہ) کے روزہ رکھنے اور اپنی کتاب (قرآن) کی تلاوت کرنے کی توفیق دے، کیونکہ بدبخت وہ ہے جو اس عظیم مہینہ میں اللہ کی مغفرت سے محروم کردیا جائے"۔
تشریح
اس فقرہ پر طائرانہ نظر: پیغمبر اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے دعا کے مستجاب ہونے کی خوشخبری دیتے ہوئے، دعا کا طریقہ اور خود دعا بھی بتادی ہے۔ دعا کا طریقہ یہ ہے کہ سچی نیتوں اور پاک دلوں کے ساتھ اللہ سے دعا مانگی جائے۔ انسان کی دعا اور طلب کیا ہونی چاہیے؟ اس مہینہ کے روزہ رکھنے کی توفیق اور قرآن کی تلاوت کی توفیق۔ اس کے بعد آپؐ نے بدبخت شخص کی علامت بتادی ہے، فرمایا: "بدبخت وہ ہے جو اس عظیم مہینہ میں اللہ کی مغفرت سے محروم کردیا جائے"۔ کیونکہ جب اس عظیم مہینہ میں اللہ کی مغفرت کو حاصل کرنا اتنا آسان ہے تو جو شخص مغفرت پروردگار سے محروم رہ گیا ہے وہ کیسے محروم رہ گیا ہے؟ جیسے پیاسا شخص سمندر کے کنارے کھڑے رہنے کے باوجود پیاسا رہ جائے تو تعجب کی بات ہے کہ یہ کیوں پیاسا رہ گیا اور پانی نہ لے سکا، یہاں تک کہ پانی اس سے دور ہوگیا اور جب پانی اتنی دیر اس کے قریب رہا تو وہ کیوں اپنا پیالہ بھرنے سے محروم رہا؟!
ہر شخص دعا مانگے: یہاں پر نبی کریم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے جو فرمایا ہے: "فَاسأَلُوا اللّهَ رَبَّكُم"، تو کسی شخص کو مستثنی نہیں کیا، اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ ہر انسان کو اللہ سے طلب کرنا چاہیے، کوئی شخص یہ نہ کہے کہ ہم تو ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جن کی دعا مستجاب ہو، لہذا دعا مانگتے ہی نہیں! اگر کوئی شخص ایسا سوچے تو اس نے آنحضرتؐ کے کلام کو بے اہمیت سمجھا ہے۔ جب ارحم الراحمین کے رحمت بھرے مہینہ میں رحمۃ للعالمین ہستی نے حکم دیدیا ہے کہ اللہ سے مانگو اور کسی کو مستثنی بھی نہیں کیا، تو اس مہینہ میں بڑھ چڑھ کر ایمان شوق اور جذبہ کے ساتھ اللہ سے دعائیں مانگنی چاہئیں۔
حضرت امام علی رضا (علیہ السلام) فرماتے ہیں: " فَاسأَلُوا اللّهَ اَن يَتَقَبَّلَ مِنكُم فيهِ الصِّيامَ ، ولا يَجعَلَهُ آخِرَ العَهدِ مِنكُم ، و اَن يُوَفَّقَكُم فيهِ لِطاعَتِهِ ويَعصِمَكُم مِن مَعصِيَتِهِ ، إنَّهُ خَيرُ مَسؤولٍ"،[2] "تو اللہ سے طلب کرو کہ اس (مہینہ) میں تم سے روزے قبول کرے، اور اسے تمہارا آخری ماہ رمضان قرار نہ دے اور یہ کہ اس (مہینہ) میں تمہیں اپنی فرمانبرداری کی توفیق دے اور تمہیں اپنی نافرمانی سے بچائے، بیشک وہ بہترین (ذات) ہے جس سے طلب کیا جاتا ہے"۔
کیسے دعا مانگی جائے؟ سچی نیتوں اور پاک دلوں کے ساتھ۔ سچی نیت وہ نیت ہے جو صرف اللہ پر بھروسہ کرے اور پاک دل وہ دل ہے جس میں گناہ کی خواہش نہ ہو۔[3] بنابریں انسان ان دو قیمتی سرمایوں کے ذریعہ اللہ سے دعا مانگے۔
کیا دعا مانگی جائے؟ زیر بحث خطبہ کے ان فقروں میں آپؐ نے دو چیزیں بیان فرمائی ہیں جو اللہ سے طلب کرنی چاہئیں:
۱۔ اِس مہینہ کے روزوں کی توفیق ۔ ۲۔ اللہ کی کتاب (قرآن) کی تلاوت کی توفیق۔
ان دو دعاوں کے بارے میں گفتگو سے پہلے، دیگر مقامات پر طائرانہ نظر کرتے ہیں کہ ماہ رمضان میں اور کیا کچھ اللہ سے طلب کرنا چاہیے:
اسی خطبہ کے ایک اور مقام پر آپؐ نے فرمایا: "أيُّهَا النّاسُ، إنَّ أبوابَ الجِنانِ في هذَا الشَّهرِ مُفَتَّحَةٌ ، فَاسأَلوا رَبَّكُم اَلاّ يُغلِقَها عَلَيكُم ، وأبوابَ النّيرانِ مُغَلَّقَةٌ فَاسأَلوا رَبَّكُم اَلاّ يَفتَحَها عَلَيكُم ، وَالشَّياطينَ مَغلولَةٌ فَاسأَلوا رَبَّكُم اَلاّ يُسَلِّطَها عَلَيكُم"، "اے لوگو! بیشک اِس مہینہ میں جنت کے دروازے کھلے ہیں تو اپنے پروردگار سے طلب کرو کہ اُن کو تم پر بند نہ کرے، اور جہنّموں کے دروازے بند ہیں تو اپنے پروردگار سے طلب کرو کہ اُن کو تم پر نہ کھولے، اور شیاطین جکڑے ہوئے ہیں تو اپنے پروردگار سے طلب کرو کہ اُن کو تم پر مسلّط (غالب) نہ کرے"۔ دوسرے خطبہ میں آپؐ نے ارشاد فرمایا: "فَتَسأَلونَ اللّهَ فيهِ حَوائِجَكُم وَالجَنَّةَ، وتَسأَلونَ اللّه َ العافِيَةَ، وتَعوذونَ بِاللّه ِ مِنَ النّارِ"[4]، "تو اللہ سے اِس (مہینہ) میں اپنی حاجات اور جنت طلب کرو، اور اللہ سے عافیت طلب کرو، اور آگ سے اللہ کی پناہ مانگو"۔
۱۔ ماہ رمضان میں روزے رکھنے کی توفیق کی دعا: روزہ کا مطلب صرف یہ نہیں کہ کھایا پیا نہ جائے، بلکہ گناہوں سے بھی پرہیز کرنا چاہیے۔ روزہ دار جیسے پیٹ کو کھانے پینے سے روکے رکھتا ہے اسی طرح آنکھ، کان، زبان اور دیگر اعضاء کو بھی گناہوں سے روکے رکھنا چاہیے، زبان جھوٹ، غیبت،الزام، چغلخوری اور نامحرم سے بقصد لذت بات کرنے وغیرہ سے پرہیز کرے، کان غیبت سننے، گانے اور حرام آوازیں سننے سے پرہیز کرے، آنکھ نامحرم اور حرام چیزوں کو دیکھنے سے پرہیز کرے۔ حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) نے فرمایا: "وصوموا شَهرَ اللّه ِ تَشرَبوا مِنَ الرَّحيقِ المَختومِ"[5]، "اور اللہ کے مہینہ کے روزے رکھو تا کہ تم سربمہر خالص شراب میں سے پیو"۔
۲۔ ماہ رمضان میں تلاوت قرآن کی توفیق کی دعا: قرآن کریم کی تلاوت کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ سوروں اور پاروں کو پڑھ کر اختتام تک پہنچا دیاجائے، بلکہ آیات کے معانی اور مفہوم کو سمجھنا چاہیے اور تلاوت کرنے سے ہدف یہ ہونا چاہیے کہ قرآن کریم کے مقاصد تک پہنچا جائے، تلاوت کرتے ہوئے ساتھ ساتھ آیات میں تدبر اور غوروخوض بھی کرنا چاہیے تا کہ اللہ تعالی کے مقصود کی سمجھ آئے اور تلاوت کرنے والا شخص، اللہ کے حکم اور نہی کے مطابق عمل کرتا ہوا، مقصد الہی کو پورا کرے۔ زیربحث خطبہ کے ایک اور مقام پر رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) تلاوت قرآن کے ثواب کے بارے میں فرماتے ہیں: "ومَن تَلا فيهِ آيَةً مِنَ القُرآنِ كانَ لَهُ مِثلُ أجرِ مَن خَتَمَ القُرآنَ في غَيرِهِ مِنَ الشُّهورِ"، "اور جو شخص اس (مہینہ) میں قرآن کی ایک آیت کی تلاوت کرے، اس کے لئے اس شخص کے ثواب جیسا (ثواب) ہے جو ماہ رمضان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں ختم قرآن کرے"۔ پیغمبر اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے دوسرے خطبہ میں فرمایا ہے: "وشَهرُ تِلاوَةِ القُرآنِ"[6]، "اور (ماہ رمضان) قرآن کی تلاوت کا مہینہ ہے"۔ آپؐ نے ایک اور خطبہ میں فرمایا: "وأكثِروا فيهِ مِن تِلاوَةِ القُرآنِ"[7]، "اور ماہ رمضان میں قرآن کی زیادہ تلاوت کرو"۔ حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) نے ماہ رمضان سے متعلق خطبہ میں ارشاد فرمایا: أيُّهَا الصّائِمُ، تَقَرَّب إلَى اللّهِ بِتِلاوَةِ كِتابِهِ في لَيلِكَ ونَهارِكَ؛ فَإِنَّ كِتابَ اللّهِ شافِعٌ مُشَفَّعٌ يَشفَعُ يَومَ القِيامَةِ لِأَهلِ تِلاوَتِهِ، فَيَعلونَ دَرَجاتِ الجَنَّةِ بِقِراءَةِ آياتِهِ"[8]، "اے روزہ دار، اللہ کا تقرّب حاصل کر، اپنی رات اور دن میں اُس کی کتاب کی تلاوت کے ذریعہ، کیونکہ اللہ کی کتاب شفاعت کرنے والی ہے جس کی شفاعت قبول ہوگی، وہ قیامت کے دن اپنی تلاوت کرنے والوں کی شفاعت کرے گی تو وہ جنت کے درجات پر اوپر جائیں گے اس کی آیات کی قرائت کرنے سے"۔ حضرت امام علی رضا (علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا: "مَن قَرَأَ في شَهرِ رَمَضانَ آيَةً مِن كِتابِ اللّهِ عز و جل كانَ كَمَن خَتَمَ القُرآنَ في غَيرِهِ مِنَ الشُّهورِ"، "جو شخص ماہ رمضان میں اللہ عزوجل کی کتاب میں سے ایک آیت پڑھے، وہ اس شخص کی طرح ہے جو ماہ رمضان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں ختم قرآن کرے"۔
بدبختی اور محرومیت کے اسباب:بدبختی اس طرح سے ہے کہ انسان، اخلاقی برائیوں کو ختم کرنے کے ذریعہ اپنے آپ کو اللہ تعالی سے ملاقات کرنے کے لئے تیار نہ کرے اور ابھی تک اس کی روح پر دنیاوی سوچ غالب ہو۔[9] لہذا جب رحمت، برکت اور مغفرت کے اس مہینہ میں انسان بدبخت اور اللہ کی مغفرت سے محروم ہوجائے تو واضح ہے کہ دوسرے مہینوں میں اس کی گمراہی کی حالت کیسی ہوگی۔
نتیجہ: انسان کی ماہ مبارک رمضان میں دعا مستجاب ہے لیکن سچی نیت اور پاک دل کے ساتھ دعا مانگنی چاہیے۔ روزے رکھنے اور قرآن کریم کی تلاوت کی توفیق کی دعا کی جائے۔انسان کو اس مہینہ میں برائیوں سے یوں دستبردار ہوجانا چاہیے کہ اللہ کی مغفرت سے محروم رہ کر بدبخت نہ بن جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] عيون أخبار الرضا (علیہ السلام)، شیخ صدوق، ج2، ص265.
[2] شهر الله في الكتاب و السنّة، محمدی ری شہری، ج1، ص113۔
[3] ماخوذ از: رمضان دريچه رؤيت، استاد طاہرزادہ، ص84۔
[4] المقنعة، ص306۔
[5] شهر الله في الكتاب و السنّة، محمدی ری شہری، ج1، ص97۔
[6] شهر الله في الكتاب و السنّة، ج1، ص108۔
[7] شهر الله في الكتاب و السنّة، ج1، ص109۔
[8] ماہ خدا، محمدی ری شہری، ج1، ص176 بنقل از: فضائل الأشهر الثلاثة۔
[9] ماخوذ از: رمضان دريچه رؤيت، استاد طاہرزادہ، ص84۔
خلاصہ: ماہ رمضان بابرکت مہینہ ہے، اس مہینہ میں دعا مستجاب ہوتی ہے، لیکن دعا مانگنے کے کچھ شرائط ہیں جن پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے، سچی نیت اور پاک دل، دعا کے شرائط ہیں، اور ان شرائط کے ساتھ روزہ رکھنے اور قرآن کی تلاوت کرنے کی توفیق کی دعا مانگی جائے، اس مضمون میں خطبہ شعبانیہ کی اس سلسلہ میں تشریح پیش کی گئی ہے۔
Add new comment