دعا کی قبولیت کا عہد الہی کو پورا کرنے سے گہرا تعلق

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں، یہ ایسا سوال ہے جو اکثر لوگوں کے ذہن میں ہے، اس کا جواب حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی حدیث کی روشنی میں حاصل کرتے ہیں تاکہ آنحضرت (علیہ السلام) کی ہدایت کے مطابق عمل کرتے ہوئے اپنی دعاوں کو قبول ہوئے دیکھیں۔

دعا کی قبولیت کا عہد الہی کو پورا کرنے سے گہرا تعلق

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تمہید: بندوں کی معبود سے طلب اور درخواست، اپنی خواہشات تک پہنچنے یا غیرمطلوب حالات کے ختم ہوجانے کو دعا کہا جاتا ہے ، چاہے مادی ہو یا معنوی، دنیاوی ہو یا اخروی ، عادی حالات میں ہو یا اضطرار کی صورت میں۔ دعا کی بنیاد کا تعلق انسان کی ذات میں پائے جانے والے فقر سے ہے اور اس کا عبادت اور اظہارِ بندگی کے ساتھ قریب تعلق ہے اور عموماً عبادی عمل کی صورت میں انجام پاتی ہے۔ ساری تاریخ میں اور سب انسانی معاشروں اور تمام ادیان کے پیروکاروں میں دعا مختلف شکلوں میں انفرادی اور معاشرتی طور پر ہمیشہ پائی جاتی رہی ہے۔
قرآن کریم اور احادیث میں دعا کرنے کے لئے کچھ شرائط بیان ہوئے ہیں۔لوگوں سے یہ بات سنائی دیتی ہے کہ ہماری دعا قبول کیوں نہیں ہوتی؟! ہم اِس مضمون میں اس سوال کا جواب حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی حدیث کی روشنی میں حاصل کرنا چاہتے ہیں تا کہ اس کے مطابق عمل پیرا ہوکر، دعا کی استجابت کے اسباب فراہم کریں۔ مگر آنحضرت (علیہ السلام) کی اس نورانی حدیث سے پہلے قرآن کی روشنی میں دعا پر مختصر گفتگو کرتے ہیں۔
دعا قرآن کریم کی نظر میں: لفظ دعا اور اس کی مشتقات قرآن مجید میں ۲۱۵ بار استعمال ہوئی ہیں۔ دعا کی اہمیت اسقدر زیادہ ہے کہ سورہ فرقان کی آخری آیت میں دعا کے سلسلہ میں ارشاد ربوبیت ہے: "قُلْ مَا يَعْبَأُ بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ يَكُونُ لِزَامًا"[1]، "پیغمبر آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہاری دعائیں نہ ہوتیں تو پروردگار تمہاری پروا بھی نہ کرتا تم نے اس کے رسول کی تکذیب کی ہے تو عنقریب اس کا عذاب بھی برداشت کرنا پڑے گا"۔ نیز سورہ غافر میں پروردگار کا ارشاد ہے: "وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ[2]"، "اور تمہارے پروردگار کا ارشاد ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا اور یقیناً جو لوگ میری عبادت سے اکڑتے ہیں وہ عنقریب ذلّت کے ساتھ جہّنم میں داخل ہوں گے"۔ قرآن مجید نے مندرجہ ذیل آیات میں انسان کے اضطرار اور مجبوری کی حالت سے دوچار ہوتے ہوئے اللہ کو پکارنے کے بارے میں فرمایا ہے: "وَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنبِهِ أَوْ قَاعِدًا أَوْ قَائِمًا[3]"…، "انسان کو جب کوئی نقصان پہنچتا ہے تو اٹھتے بیٹھتے کروٹیں بدلتے ہم کو پکارتا ہے"۔ "وَإِذَا مَسَّ النَّاسَ ضُرٌّ دَعَوْا رَبَّهُم مُّنِيبِينَ إِلَيْهِ[4]"، "اور لوگوں کو جب بھی کوئی مصیبت چھوجاتی ہے تو وہ پروردگار کو پوری توجہ کے ساتھ پکارتے ہیں"۔ "وَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهُ مُنِيبًا إِلَيْهِ[5]"، "اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو پوری توجہ کے ساتھ پروردگار کو آواز دیتا ہے"۔ "وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الْإِنسَانِ أَعْرَضَ وَنَأَىٰ بِجَانِبِهِ وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ فَذُو دُعَاءٍ عَرِيضٍ[6]"، "اور ہم جب انسان کو نعمت دیتے ہیں تو ہم سے کنارہ کش ہوجاتا ہے اور پہلو بدل کر الگ ہوجاتا ہے اور جب برائی پہنچ جاتی ہے تو خوب لمبی چوڑی دعائیں کرنے لگتا ہے"۔
احادیث میں دعا کی صفات اور عظمت: احادیث میں دعا کی یہ صفات بیان ہوئی ہیں: مومن کا ہتھیار، عبادت کی حقیقت، نور اور آسمانوں اور زمین کی زینت، رحمت کی کنجی، ہر درد کی شفا، روزی کے بڑھنے کا باعث اور شیطان کے نقصان سے محفوظ رہنے کا سبب، مصیبت کو ختم کرنے اور مصیبت کے نازل ہونے کو رونے کا وسیلہ۔
اصل موضوع پر گفتگو: اب اصل بحث پر آتے ہیں کہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے دعا کے قبول نہ ہونے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ (علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا: "لأنّكُم لا تَفونَ للّه بِعَهْدِهِ و أنّ اللّه َ يقولُ» : أوْفُوا بِعَهْدِي أُوْفِ بِعَهْدِكُم[7]« ، و اللّه ِ لَو وَفَيْتُم للّه لَوَفى اللّه ُ لَكُم[8]"، "کیونکہ تم لوگ اللہ کے عہد کو پورا نہیں کرتے ہو حالانکہ اللہ تعالی فرماتا ہے: »تم مجھ سے کئے ہوئے عہد کو پورا کرو میں بھی تم سے کئے ہوئے اپنے عہد کو پورا کروں گا«، اللہ کی قسم! اگر تم اللہ (کے عہد) کو پورا کرو تو وہ بھی تمہارے (عہد) کو پورا کرے گا"۔
حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی اس حدیث سے واضح ہوجاتا ہے کہ ہماری دعاوں کی استجابت میں رکاوٹ یہ ہے کہ ہم اللہ کے عہد اور وعدہ کو پورا نہیں کرتے تو دعا مستجاب نہیں ہوتی۔ کیونکہ یہ عہد دو طرفہ ہے، تو اگر ایک طرف پورا نہ کرے تو دوسری طرف والا بھی پورا نہ کرنے کا حق رکھتا ہے۔ عہد الہی قرآن کریم میں کئی بار ذکر ہوا ہے۔ سورہ یس میں ساری اولادِ آدم کے بارے میں عہد کا تذکرہ ہوا ہے: "أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَن لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ .وَأَنِ اعْبُدُونِي هَـٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ[9]"، "اولاد آدم کیا میں  نے تم سے اس بات کا عہد نہیں لیا تھا کہ خبردار شیطان کی عبادت نہ کرنا کہ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے، اور میری عبادت کرنا کہ یہی صراط مستقیم ہے"۔ عبادت اور بندگی کا مطلب یہ ہے کہ انسان اللہ تعالی کے حکم کو معیار قرار دے اور اپنے سب کام حکم پروردگار کے مطابق انجام دے، ہم اسی چیز کو اہمیت دیں جو اللہ کی نظر میں محبوب ہو اور اگر کوئی چیز یا کوئی انسان، اللہ کے حکم کے مقابلہ میں آگیا تو ہماری نظر میں اس چیز کی یا اس شخص کی بات کی کوئی قدر نہیں ہونی چاہیے اور ہر عمل اور ہر علم میں اللہ ہی کا حکم، معیار رہنا چاہیے، مگر اکثر لوگ انہی خواہشات کو پورا کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں جو شیطان ان کے دل میں ڈالتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ شیطان کی عبادت کرتے ہوئے، شیطان کے بندے بن جاتے ہیں حالانکہ اللہ فرماتا ہے: میری عبادت کرو یہی صراط مستقیم ہے، لیکن وہ شیطان کی پیروی میں اپنی ساری زندگی برباد کربیٹھتے ہیں اور جو عہد، اللہ تعالی نے ان سے لیا ہوا تھا اس کو فراموش کردیتے ہیں۔
قرآن کریم امامت الہی کو بھی اللہ کا عہد بتا رہا ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالی نے امامت کا مقام عطا فرمایا تو آنحضرت (علیہ السلام) نے اپنی اولاد میں سلسلہ امامت کے جاری رہنے کے بارے میں خداوند متعال سے دریافت کیا تو ارشاد الہی ہوا: "لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ"، "میرا عہدہ (امامت) ظالموں تک نہیں پہنچے گا"۔ لہذا اس آیت میں اللہ تعالی نے اپنے عہدہ امامت کو "اپنا عہد" کہا ہے۔ زیرِبحث حدیث میں جو امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے عہد پورا کرنے والی آیت بیان فرمائی ہے، اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کا عہد کیا ہے، جو ہمیں پورا کرنا ہے تو تب اللہ بھی ہم سے کیا ہوا عہد پورا کرے گا؟ اس سوال کا جواب آنحضرت (علیہ السلام) کی دوسری روایت کی روشنی میں واضح ہوتا ہے۔ حضرت صادق آل محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دوسری روایت میں ارشاد فرماتے ہیں: »"وَ أَوْفُوا بِعَهْدِي «قال: بولاية أمير المؤمنين (عليه السلام) »أُوفِ بِعَهْدِكُمْ« اوف لكم بالجنّة[10]"۔ »"اور میرے عہد کو پورا کرو«، حضرت نے فرمایا: امیرالمومنین (علیہ السلام) کی ولایت کے ذریعہ» تو میں بھی تمہارے عہد کو پورا کروں گا« میں اسے جنت کے ذریعہ تمہارے لیے پورا کروں گا"۔
نتیجہ: اگر دعا مستجاب نہیں ہورہی تو اس بات پر توجہ کرنا چاہیے کہ استجابت میں رکاوٹ کیا ہے۔ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی روایت کے مطابق، اللہ کیونکہ فرماتا ہے کہ تم اپنے عہد کو پورا کرو تو میں بھی اپنے عہد کو پورا کروں گا، تو اگر انسان عہد الہی کو پورا کرے تو حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) اپنی صادقانہ زبان سے اللہ کی قسم کھا کر فرماتے ہیں کہ اگر تم اللہ (کے عہد) کو پورا کرو تو وہ بھی تمہارے (عہد) کو پورا کرے گا۔ اور سورہ یس کی مذکورہ بالا آیت سے واضح ہوتا ہے کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا اور اللہ کی عبادت کرنا، وہ عہد ہے جو ہم نے اللہ سے کیا ہے جسے ہم نے پورا کرنا ہے، اور واضح ہے کہ سورہ غافر کی مذکورہ بالا آیت میں اللہ نے جب فرما دیا ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا، تو اللہ تعالی ضرور قبول فرمائے گا۔ نیز ولایت امیرالمومنین (علیہ السلام) جو روایت کی روشنی میں اللہ کا عہد ہے جسے لوگوں نے پورا کرنا ہے تو یہ بھی واضح ہے کہ ولایت امیرالمومنین (علیہ السلام) اسی کے پاس ہوتی ہے جو آنحضرت (علیہ السلام) کے فرامین اور حکم پر عمل پیرا ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] سورہ فرقان، آیت 40۔
[2] سورہ غافر، آیت 60۔
[3] سورہ یونس آیت 12۔
[4] سورہ روم، آیت 33۔
[5] سورہ زمر، آیت 8۔
[6] سورہ فصلت، آیت 51۔
[7] سورہ بقرہ، آیت 40۔
[8] بحار الأنوار، علامہ مجلسی، ج90، ص368۔
[9] سورہ یس، آیت 60، 61۔
[10] شرح الكافي، محمد صالح مازندرانی، ج7، ص104۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
7 + 1 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 67