خلاصہ: جب انسان دعا کرتا ہے تو بظاہر اس کی خواہش پوری نہیں ہوتی تو بعض اوقات اللہ کی رحمت سے نعوذباللہ ناامید ہونے لگتا ہے یا دعا کرنا چھوڑ دیتا ہے، یہ دونوں کام صحیح نہیں، بلکہ چاہیے کہ انسان قرآن اور روایات میں دعا کے مستجاب ہونے کی رکاوٹوں کو تلاش کرے۔ اس مضمون میں ان میں سے بعض کا تذکرہ کرتے ہوئے مختصر وضاحت کی جارہی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
دعا ایسا عمل ہے جس کا اللہ تعالی نے خود حکم دیا ہے اور دعا کی قبولیت کا بھی وعدہ دیا ہے، اور دعا کو عبادت کہا ہے اور جو شخص اس عبادت سے تکبر کرے اس کی سزا بھی مقرر کی ہے۔ اب یہ سوال پیش آتا ہے کہ جب خدا نے خود دعا کا حکم دیا ہے تو پھر بعض دعائیں مستجاب کیوں نہیں ہوتیں؟
جواب یہ ہے کہ بیشک اللہ تعالی نے سورہ غافر کی آیت 60 میں فرمایا ہے: "وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ"، "اور تمہارا پروردگار کہتا ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا اور جو لوگ میری (اس) عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ عنقریب ذلیل و خوار ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے"۔
مگر دعا کے مستجاب نہ ہونے کی مختلف وجوہات ہیں جن میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ دعا کا مستجاب نہ ہونا یا دیر سے مستجاب ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اللہ کو اپنے بندہ سے تھوڑی محبت ہے، بلکہ بعض اوقات اس کے برعکس ہے، یعنی جتنی دیر سے مستجاب ہو، زیادہ محبت کی دلیل ہے اور روایت کے مطابق اللہ اپنے بندہ کی آواز سننا چاہتا ہے اور بعض بندوں کی حاجت فوراً اس لیے پوری کردیتا ہے کہ ان کی آواز نہیں سننا چاہتا (البتہ یہ ان کے اپنے گناہوں کی وجہ سے ہے)۔
۲۔ عہد الہی پر عمل نہ کرنا دعا کی استجابت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ ایک شخص نے حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے عرض کیا: اللہ فرماتا ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا، اور ہم دعا کرتے ہیں تو ہماری (دعا) قبول نہیں ہوتی؟ تو حضرتؑ نے فرمایا: "اس لیے کہ تم لوگ اللہ کے عہد کو پورا نہیں کرتے اور اللہ فرماتا ہے: "تم میرے عہد کو پورا کرو میں بھی تم سے کیے ہوئے عہد کو پورا کروں گا، اللہ کی قسم! اگر تم لوگ اللہ کے عہد کو پورا کرو تو اللہ عہد کو ضرور تمہارے لیے پورا کرے گا"۔ (میزان الحکمہ، ج4، ص29)۔
۳۔ بعض اوقات جب انسان کی دعا مستجاب نہیں ہوتی اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ انسان اپنے فائدہ اور نقصان کو پہچاننے میں غلطی کا شکار ہوجاتا ہے، کیونکہ کبھی انسان اپنے پورے وجود کے ساتھ اللہ سے اپنی حاجت مانگتا ہے، جبکہ بالکل اس میں اس کا فائدہ نہیں ہوتا، نیز فائدہ حاصل کرنے کے لئے جلدبازی کرنا باعث بنتا ہے کہ اس حاجت کے تمام پہلوؤں کی چھان بین نہ کرسکے اور حقیقی خیر کو شر سے الگ نہ کر پائے، تو اللہ اس کی دعا اس لیے مستجاب نہیں کرتا کہ اس میں بندہ کا نقصان ہے، بیشک اللہ قادر ہے، لیکن حکیم بھی ہے۔
۴۔ انسان کے گناہ اس کی دعا کی استجابت کو روک لیتے ہیں، جیسا کہ دعائے کمیل میں حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) بارگاہ الہی میں عرض کرتے ہیں: "اللہم اغفرلی الذنوب التی تحبس الدعا"، "بارالہا میرے وہ گناہ معاف فرما جو دعا کو روک لیتے ہیں"۔ (البتہ واضح رہے کہ معصوم، ہر گناہ سے معصوم ہوتا ہے)۔
۵۔ دعا میں اخلاص ہونا چاہیے، جیسا کہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "بیشک جب بندہ سچی نیت اور مخلص دل کے ساتھ اللہ تبارک و تعالی سے دعا کرے تو اللہ عزوجل کے عہد کو پورا کرنے کے بعد اس کی دعا مستجاب ہوتی ہے، اور جب اللہ عزوجل سے بغیر کسی نیت اور اخلاص کے دعا کرے تو اس کی دعا مستجاب نہیں ہوتی، کیا اللہ تعالی نہیں فرمایا: "اور میرے عہد کو پورا کرو میں تمہارے عہد کو پورا کروں گا"؟ تو جس نے پورا کیا اس کے لئے پورا کیا جائے گا"۔ (میزان الحکمہ، ج4، ص29)۔
………………….
حوالہ:
]میزان الحکمہ، محمدی ری شہری[
Add new comment