اہل بیت (علیہم السلام) کی دعاوں کی چند اہم صفات

Thu, 05/25/2017 - 01:25
اہل بیت (علیہم السلام) کی دعاوں کی چند اہم صفات

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اہل بیت (علیہم السلام) کی دعاوں کی چند اہم صفات
مقدمہ: توحید کی وادی اور قرب پروردگار تک پہنچانے والا ایک بہترین وسیلہ دعا ہے، جس کی قرآن کریم اور روایات میں اہمیت بیان ہوئی ہے، لہذا مناسب ہے کہ سب مومنین دیگر عبادات کے ساتھ ساتھ دن رات میں کچھ وقت، اللہ تعالی سے مناجات کرنے اور دعا کرنے کے لئے رکھیں، خاص طور پر اگر وہ دعا، استجابت کے وقت میں ہو تو بہتر ہے۔
دعا کا تعلق انسان کے ذاتی فقر سے ہے، یعنی انسان ذاتی طور پر اللہ تعالی کا محتاج ہے، یہاں تک کہ باطل مذاہب والے لوگ بھی اپنے اپنے الگ طریقوں سے دعائیں مانگتے ہیں، چاہے اپنے من گھڑت معبود سے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ دعا مانگنا، انسانی فطرت ہے، مگر بنیادی فرق یہ ہے کہ باطل دین و مذہب والے اس بارے میں بالکل غلطی پر ہیں کہ کس سے مانگ رہے ہیں جو ان جیسا بلکہ ان سے بھی زیادہ دوسروں کا محتاج ہے، جس کی ضروریات کو خود انسان پورا کرنے والے ہیں تو وہ خود ساختہ معبود کیسے ان کی ضروریات کو پورا کرے گا، یہی کھلم کھلا گمراہی ہے جس کے گڑھے میں اکثر لوگ آج تک غرق ہوتے جارہے ہیں، کیونکہ اپنے حقیقی معبود کو نہ پہچان پائے، جبکہ یہ واضح سی بات ہے کہ انسان کی تمام ضروریات کو وہی پورا کرسکتا ہے جو خود بے نیاز ہو اور کسی کا محتاج نہ ہو اور ایسی ذات صرف ایک ہی ہے جو اللہ تعالی ہے۔ جو سورہ فاطر میں ارشاد فرماتا ہے: "يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّـهِ وَاللَّـهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ[1]"، "اے لوگو! تم (سب) اللہ کے محتاج ہو اور اللہ ہی بے نیاز ہے جو قابلِ تعریف ہے"۔
دعا کے اوقات: اللہ تبارک و تعالی مختلف طریقوں سے قرآن کریم کی مختلف آیات میں لوگوں کو دعا کرنے کا حکم دے رہا ہے۔ اہل بیت (علیہم السلام) کی تعلیمات میں دعا کی استجابت کی مختلف شرائط اور مختلف اوقات بتائے گئے ہیں۔ اوقات کے لحاظ سے مندرجہ ذیل اوقات روایات سے ماخوذ ہیں:
نیمه شعبان[2]،  عرفه کا دن[3]۔جمعہ کے دن[4]۔ واجب نماز کے بعد، بارش برستے ہوئے، سحر کے وقت[5]۔ ظہر کے وقت[6]۔ قرآن کی قرائت کے وقت۔[7] مصیبت آنے سے پہلے دعا کرناجو باعث بنتا ہے کہ مصیبت کے وقت کی جانے والی دعا مستجاب ہوجائے[8]۔ چار اوقات میں دعا مستجاب ہوتی ہے: اذان فجر سے پہلے، طلوع فجر کے بعد، ظہر کے بعد، مغرب کے بعد۔[9]

اب اس عنوان پر گفتگو کرتے ہیں کہ اہل بیت (علیہم السلام) کی دعاوں میں کیا صفات اور خصوصیات پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے ہمیں چاہیے کہ ان کی دعاوں کو اپنی دعاوں پر ترجیح دیں اور ان کی پاکیزہ زبان سے جاری ہونے والی دعاوں کو اپنی زبان پر جاری کرتے ہوئے، اللہ کی بارگاہ قدسی میں دعا کریں:
۱۔ ضرورت اور وسعت سے روشناس کروانا
معصومؑ کی زبان اطہر سے ہونے والی دعا میں یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ ایک طرف سے ہماری ضروریات کی وسعت، ہماری طاقتوں کی وسعت اور ہماری غفلتوں کی وسعت اور راستے کے خطرات کی ہمیں راہنمائی ہوتی ہے۔ دوسری طرف سے پروردگار کے کرم کی وسعت بھی ہمیں دکھاتے ہیں، ایسے حقائق ہمیں بتاتے ہیں کہ اگر ہم اپنی زبان سے جتنی دعا کرنا چاہیں، ان حقائق تک نہیں پہنچ سکتے۔ اس کا عملی تجربہ یہ ہے کہ ہم اپنی دعاوں کو دیکھ لیں جو روزانہ اللہ سے مانگتے ہیں اور پھر دعائے ابوحمزہ ثمالی، دعائے کمیل اور مناجات شعبانیہ کو بھی دیکھ لیں، کتنا فرق ہے معصوم اور غیرمعصوم کی دعاوں میں۔ لہذا اگر اہل بیت (علیہم السلام) سے دعا و مناجات کرنے کا طریقہ نہ سیکھا جائے تو انسان کو کچھ نہیں معلوم کہ اللہ کے پاس کیسے خزانے موجود ہیں جن تک ہم پہنچ سکتے ہیں، معصومؑ ہی جانتے ہیں کہ ان خزانوں میں کیا ہے۔ معصومؑ یہ بھی جانتے ہیں کہ ہماری فطری طاقتیں اور فطری خواہشات کیا ہیں، اللہ نے ہمارے وجود میں کیسی رغبتیں اور دلچسپیاں رکھی ہیں۔ معصومین (علیہم السلام) کی دعائیں انسان کی فطرت کی زبان کو کھولتی ہیں، یہ فطرت کی زبان کائنات کے حقائق کے بالکل مطابق ہے، ہم نہیں جانتے کہ توحید کی وادی میں کن مقامات تک پہنچا جاسکتا ہے۔بنابریں جیسے آل محمد (علیہم السلام) کا کسی آدمی سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا، اسی طرح ان حضراتؑ کی دعاوں کا بھی لوگوں کی دعاوں سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔
۲۔ اہل بیت (علیہم السلام) کی دعائیں، بہترین دعائیں
انسان اپنی طرف سے ادب و احترام کے ساتھ اللہ سے دعا مانگے تو یہ اچھا کام ہے، لیکن واضح رہے کہ غیرمعصوم کی دعا انسان کی حدنظر اور سوچ کو محدود کردیتی ہے، جبکہ معصومؑ کی دعا عظیم وسعتوں تک انسان کو لے جاتی ہے، تو معصومؑ کے اتنے وسیع اور علم و معرفت سے لبریز دعاوں کو چھوڑ کر اپنی کم علمی کی بنیاد پر انتہائی چھوٹی اور محدود دعائیں کرنا، کھلم کھلا گھاٹا ہے۔ انسان اپنی سوچ سے جنم لی ہوئی دعاوں کے ذریعہ اپنی حاجات تک تو پہنچ سکتا ہے، لیکن دراصل اس کی حاجتیں اتنی محدود ہوتی ہیں کہ اسے بلندی کی طرف نہیں لے جاتیں، مگر اہل بیت (علیہم السلام) کیونکہ اللہ تعالی کی طرف سے مقرر کردہ ہادی و راہنما ہیں، تو یہ حضراتؑ دعاوں کے ذریعہ انسان کو اللہ کے تقرب تک پہنچاتے ہیں۔ لہذا معصومؑ کی دعا ہماری فطرت کے ظرف کے مطابق ہے اور ہماری فطرت کی زبان کے بھی مطابق ہے، دوسرے لفظوں میں وہ ہمیں اللہ کی قدرت، رحمت اور مغفرت سے بھی روشناس کرواتے ہیں اور ہمارا فقر اور ہماری محتاجی بھی ہمیں بتلاتے ہیں۔
۳۔ اہل بیت (علیہم السلام) کی دعاوں میں امت کی شفاعت
معصومؑ کی دعاوں میں ایک اور خصوصیت، شفاعت کی خصوصیت ہوتی ہے۔ وضاحت یہ ہے کہ معصوم تو مقام عصمت پر فائز ہیں اور ادھر سے بعض دعاوں میں اللہ سے گناہوں کی بخشش طلب کرتے ہیں جیسے دعائے کمیل میں حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) بارگاہ الہی میں عرض کرتے ہیں: "اَللّهُمَّ اغْفِرْ لِىَ الذُّنُوبَ الَّتى تَهْتِکُ الْعِصَمَ"، تو اس کی علماء نے مختلف وضاحتیں بیان کی ہیں، جن میں سے ایک اہم وضاحت یہ ہے کہ معصومؑ جب اللہ سے گناہوں کی بخشش طلب کرتے ہیں تو یہ شفاعتی دعا ہے جو امت کے لئے ہے اور لوگوں کے گناہوں کو بخشوانے کے لئے ہے۔ لہذا جب معصومؑ کی زبان سے بیان کردہ دعا کو انسان پڑھتا ہے تو اصل دعا کو معصومؑ ہی نے پڑھا ہے، ہم ان کی شفاعت سے توحیدی مقامات کو طے کرتے ہیں اور رکاوٹوں کو ہٹاتے ہیں ورنہ مقامِ عز قدس کا غیرمعصوم کو کیا علم کہ یہ مقام کیسا مقام ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے، بنابریں اگر انسان مقام عزقدس تک بھی پہنچ جائے تو معصومؑ ہی ہیں جو اپنی دعا کے ذریعہ لوگوں کو اس مقام پر لے جاتے ہیں۔
تیسری صفت جو غورطلب ہے وہ یہ ہے کہ دعاوں اور مناجات میں مثلاً مناجات شعبانیہ میں جتنے مقامات ہیں، سب توحیدی مقامات ہیں جو ولایت کی ہی وادی میں ہیں، یعنی سالک کبھی بھی اپنے سلوک اور معنوی سفر میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل بیت (علیہم السلام) کی ولایت کی وادی سے نکل نہیں جاتا، یعنی ایسا نہیں ہے کہ کوئی شخص ایسے مقام پر پہنچ جائے، مقام فنا پر اس طرح سے پہنچ جائے کہ وہاں اہل بیت (علیہم السلام) نہ ہوں، جو مقام بھی ہے حتی مقام عز قدس، حتی کمال الانقطاع (سب کچھ سے کٹ جانے کا مقام)، سب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولایت کی وادی میں ہے۔
نتیجہ: دعا کرنا انسان کے ذاتی فقر سے جنم لیتا ہے، سب لوگ فقیر ہیں اور صرف اللہ ہی غنی اور بے نیاز ہے تو سب فقیر اس بے نیاز اللہ کے محتاج ہیں، لہذا انسان کو چاہیے کہ اللہ کی بارگاہ میں بڑھ چڑھ کر دعا کرے اور اپنی حاجتیں مانگے۔ حاجتوں کے مستجاب ہونے کے مختلف شرائط پائے جاتے ہیں جن کو اللہ تعالی کے نورانی کلام اور اہل بیت (علیہم السلام) کے نورانی بیانات سے ہی تلاش کرنا چاہیے۔ اہل بیت (علیہم السلام) کیونکہ ہمارے فقر اور اللہ کی رحمت کی وسعت کو اچھی طرح جانتے ہیں، مادی حدوں سے بڑھ کر معنوی مقامات سے بخوبی واقف ہیں اور نیز ان کی دعاوں کا ہماری شفاعت سے تعلق ہے، تو ہمیں چاہیے کہ اہل بیت (علیہم السلام) کی زبانی بیان کردہ دعاوں کو اپنی زبان پر جاری کرتے ہوئے، اللہ کی بارگاہ اقدس میں اپنی حاجات طلب کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] سورہ فاطر، آیت 15۔
[2] بحارالانوار، علامه مجلسي، ج 96، ص 254
[3] بحارالانوار، ج 94، ص 85۔
[4] الدعوات، قطب راوندي، ص 36۔
[5] ميزان الحكمہ، ج4، ص44۔
[6] كافي، شيخ كليني، ج 2، ص 477۔
[7] كافي، ج 2، ص 477۔
[8] كافي، ج 2، ص 472۔
[9] كافي، ج 2، ص 477۔

kotah_neveshte: 

دعا کی قرآن و روایات میں بہت تاکید ہوئی ہے۔ دعا کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ انسان ذاتی طور پر فقیر ہے۔ بارگاہ الہی میں ادب و احترام اور خاص شرائط کے ساتھ دعا و مناجات کرنے کا طریقہ اہل بیت (علیہم السلام) سے سیکھنا چاہیے۔ نیز ان حضراتٰ کی دعا و مناجات میں کئی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 4 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 59