خلاصہ: اللہ تعالی نے قرآن کریم میں دعا کی اس قدر اہمیت بیان کی ہے کہ اسے اپنی عبادت کہا ہے اور جو شخص، اللہ کی اس عبادت کے سامنے تکبر کرے گا اسے جہنم میں ذلت کے ساتھ داخل کیا جائے گا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
دعا اس قدر ضروری ہے کہ اللہ تعالی نے سورہ فرقان کی آخری آیت (آیت 77) میں رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کو حکم دیا ہے کہ " قُلْ مَا يَعْبَأُ بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ"، "آپ کہہ دیجئے! اگر تمہاری دعا و پکار نہ ہو تو میرا پروردگار تمہاری کوئی پروا نہ کرے"۔
"دعا" جو بندوں کا اللہ سے رابطہ رکھنے کا واحد راستہ ہے اور واحد ذریعہ ہے جو خداوند متعال نے اپنے سے رابطہ رکھنے کے لئے مقرر فرمایا ہے۔ دوسرے لفظوں میں: ماثورہ دعائیں (یعنی جو دعائیں معصومین علیہم السلام سےمنقول ہیں) مخلوق کا خالق سے رابطہ قائم کرتی ہیں کہ اگر اللہ سے یہ رابطہ اور اس کی طرف یہ توجہ نہ ہو تو خداوند منّان اپنی خاص عنایت روک لے گا۔ اگر ایسا ہوگیا تو بندے اس عنایت کو قبول کرنے کی طاقت کھو بیٹھیں گے اور اللہ کی رحمت کے تقاضے کو گنوا بیٹھیں گے۔
قرآن کریم اس کیفیت کو ایک طرح کا تکبر جانتا ہے وہ بھی اس مخلوق کا جو تکوینی طور پر سوائے ربط اور بندگی کے کوئی حیثیت نہیں رکھتی، سورہ غافر کی آیت 60 میں ارشاد الٰہی ہے: "وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ"، "اور تمہارا پروردگار کہتا ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو۔ میں تمہاری دعا قبول کروں گا اور جو لوگ میری (اس) عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ عنقریب ذلیل و خوار ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے"۔البتہ ایسی مخلوق سے ایسی کیفیت بہت نازیبا اور قبیح ہے اور اس کی وقاحت اور بے ادبی قابل ہی نہیں ہے، اس حد تک کہ اللہ عزّوجل نے کھلم کھلا فرما دیا ہے کہ پروردگار ایسے لوگوں کی پرواہ نہیں کرتا اور ان سے اللہ رحمت کٹ جاتی ہے۔ [ماخوذ از: شہود و شناخت، ج1، ص51]۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ترجمہ آیات: محمد حسین نجفی صاحب۔
[2] مذکورہ بالا مطالب ماخوذ از: شہود و شناخت، حسن ممدوحی کرمانشاہی۔
Add new comment