بے شک عید خوشیوں کا دن ہے اور اس دن خوشیاں منانے کی تاکید بھی ملتی ہے مگر حقیقت میں مسلمانوں کی سب سے بڑی خوشی یہ ہے کہ اُس سے اُس کا پالنے والا اللہ راضی ہوجائے اور وہ اپنے خدا سے راضی ہوجائے، چنانچہ قرآن کریم میں واضح لفظوں میں اعلان ہے "رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوا عَنْهُ" (سورہ توبہ/ 100)ان کی کامیابی اور خوشی کا عالم یہ ہو گا کہ وہ اللہ سے راضی ہوں گے اور اللہ ان سے راضی ہو گا ۔کیونکہ اللہ کی خوشنودی کو ہی اللہ نے قرآن کریم میں سب سے بڑی خوشی قرار دیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ " اور اللہ کی طرف سے خوشنودی تو سب سے بڑی چیز ہے (جو جنت والوں کو نصیب ہوگی) یہی تو زبردست کامیابی ہے‘‘۔
عید لغت میں مادہ "عود" سے ہے جس کے معنی ہیں پلٹنا۔ لہذا ان دنوں کو جن میں کسی قوم سے مشکلات دور ہوتی ہیں اور کامیابیاں ان کی طرف پلٹتی ہیں عید کہا جاتا ہے، اسلامی عیدوں میں اس مناسبت سے کہ ایک مہینہ اللہ کی اطاعت کے سائے میں رہ کر، یا فریضہ حج انجام دے کر روح انسانی کی پاکیزگی واپس پلٹتی ہے، عید کہا جاتا ہے۔( تفسير نمونه، ج5، ص.131)
شوال کے پہلے دن کو اس لئے عید فطر کہتے ہیں کہ اس دن کھانے پینے کی محدودیت ختم ہونے کا اعلان ہو جاتا ہے کہ مؤمنین دن میں افطار کریں۔ فطر اور فطور کا معنی کھانے پینے کا ہے، کھانے پینے کے آغاز کرنے کو بھی کہا گیا ہے۔ کسی وقت تک کھانے پینے سے دوری کرنے کے بعد جب کھانا پینا شروع کیا جاۓ تو اسے افطار کہتے ہیں اور اسی لئے رمضان المبارک میں دن تمام ہونے اور مغرب شرعی ہونے پر روزہ کھولنے کو افطار کہا جاتا ہے یعنی کھانے پینے کی اجازت حاصل ہوجاتی ہے۔
منبع و ماخذ
تفسير نمونه، ناصر مكارم شيرازى ، انتشارات دار الكتب الإسلامية ، تهران 1374 ش، چاپ اول۔
Add new comment