جسے دین و شریعت کی ابجد سے بھی واقفیت نہیں جو رومن اردو سے اسلام سمجھتا ہے وہ بھی علماء پر انگشت نمائی کرتا نظر آتا ہے۔
تہذیبوں کے تصادم کا خاصہ یہ ہوتا ہے کہ ‘ دو مختلف و متضاد تصورات خیر’ حصول قوت کے لیے پنجہ آزمائی میں مصروف عمل ہوتے ہیں ، یہ کشمکش لازما دو کرداروں کے اردگرد لڑی جاتی ہے ، ان میں سے ہر ایک کسی ایک خیر کا نمائندہ و خیر خواہ بن کر سامنے آتا ہے،
تہذیبوں کی یہ جنگ جیتنے کیلئے لازم ہوتا ہے کہ وہ گروہ جو آپکے مخالف نظریے کا داعی ہے، اسے عوام میں رسوا اور بےقدروقیمت ثابت کرکے معاشرتی اخراج سے دوچار کردیا جائے تاکہ عوام الناس ہدایت کے لیے اسکی طرف دیکھنے کے بجائے آپ کی طرف دیکھیں، اسکے بجائے آپ کو اپنا جائز نمائندہ تصور کریں۔ ۔!!
مسلم معاشروں میں یہی کشمکش آج علماء اور لبرل طبقے کے درمیان وقوع پذیر ہے، ان میں سے ایک ‘معتبر تاریخی اسلام’ جبکہ دوسرا ‘مغرب زدہ اسلام’ کا حامی ہے۔ روایت پسندطبقوں کے لیے لازم ہے کہ اس جنگ میں وہ علماء کا ہر محاذ پر ہر (جائز) طریقے سے دفاع کریں، کیونکہ اگر یہ جنگ وہ ہار گئے تو اسکا مطلب روایتی اسلامی کی شکست کے سوا اور کچھ نہیں ہوگا، ظاہر سی بات ہے کہ جب ایک نظریے کا حامی گروہ ہی نہ رہے گا تو اس نظریے کے وجود کے کیا معنی؟۔
اس دفاع میں یہ بات غیر اہم ہوتی ہے کہ ‘ ہمارا طبقہ پورے حق پر ہے یا نہیں’۔ اسکی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ ہم اپنوں کے عیوب کو برا نہیں سمجھتے ، بلکہ یہ ہوتی ہے کہ ہم اسے وہ موقع دینا چاہتے ہیں جس کے ذریعے وہ اپنی ان خامیوں کو دور کرلے ( کیا جمہوریت کے حامی اسکے تمام تر عیبوں کے باوجود اسکی حمایت نہیں کرتے؟)۔ درحقیقت تہذیبی تصادم کے دوران کوئی بھی طبقہ اپنے تصور خیر پر سوفیصد پورا نہیں اترتا ، یہاں اہم بات یہ ہوتی ہے کہ آپ کس طرف کھڑے ہیں ؟؟؟!!!
Add new comment