خلاصہ: اتحاد میں زندگی ہے اور تفرقہ، موت اور ھلاکت کا سبب ہے
ایک دن کی بات ہے کسی شکاری نے ندی کے کنارے اپنا جال تان کر رکھ دیا، بہت ساری چڑیاں دانہ چگنے کی لالچ میں جال کے اندر جا پھنسیں، یہ دیکھ کر شکاری بہت خوش ہوا، اور دوڑ کر آیا کہ جلدی سے ساری چڑیوں کو پکڑلے، لیکن جیسے ہی وہ جال کے قریب پہنچا تو ڈر کے مارے ساری چڑیاں ایک ساتھ ایسا بھاگیں کہ جال بھی ساتھ لے اڑیں، یہ ماجرا دیکھ کر شکاری کے ہوش اڑ گئے اور سوچنے لگا کہ آخر چڑیاں جال لے کر کیسے اڑگئیں؛ مگر وہ ہمت نہیں ہارا اور چڑیوں کے پیچھے لگ گیا۔
راستے میں اسے ایک آدمی ملا اور پوچھنے لگا کہ تم اس قدر تیزی سے کہاں بھاگے جارہے ہو؟ شکاری نے آسمان میں اڑتی ہوئی چڑیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کو پکڑنے کی کوشش کر رہاہوں۔
یہ سن کر وہ آدمی ہنس پڑا اور کہنے لگا : اللہ تم کو عقل و شعور دے، کیا تم سچ مچ سمجھ رہے ہو کہ ان اڑتی ہوئی چڑیوں کو اپنے قابو میں کر لوگے!۔اس شکاری نے کہا: اگر جال میں صرف ایک چڑیا ہوتی تو شاید میں اسے پکڑنے میں کامیاب نہ ہوسکتا؛ لیکن ابھی آپ خود اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے میں انہیں کیسے پکڑ رہاہوں!۔
شکاری کی بات بالکل درست نکلی، جب شام کا دھند ھلکا چھایا، تو ساری چڑیوں کو اپنے اپنے گھونسلے میں جانے کی فکر لاحق ہوگئی، پھر کیا ہوا کہ کسی نے جال کو لکڑیوں کی طرف کھینچ کر لے جانا چاہا، کسی نے جھیل کی طرف جانے کی کوشش کی، کسی نے پہاڑ کی چٹان کی طرف بھاگنا چاہا، اور کسی جھاڑیوں کا رخ کرنا چاہا؛ مگر ان میں سے کوئی کامیاب نہ ہوسکی، اور نتیجہ یہ ہوا کہ ساری چڑیاں جال لے کر نیچے زمین پر گر پڑیں، شکاری خوش خوش آیا اور سب کو پکڑ کر لے گیا۔
بچو! تم نے دیکھا کہ اتفاق میں کتنی طاقت و برکت ہے، اگر وہ ساری چریاں ایک سمت محو پرواز رہتیں تو شاید وہ کبھی شکاری کے چنگل میں نہ آتیں مگر جب ان میں اختلاف ہوا تو سب کی سب موت کے منہ میں چلی گئیں۔اسی لئے حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: ”وَ الْزَمُوا السَّوَادَ الْأَعْظَمَ فَإِنَّ يَدَ اللَّهِ مَعَ الْجَمَاعَةِ وَ إِيَّاكُمْ وَ الْفُرْقَةَ فَإِنَّ الشَّاذَّ مِنَ النَّاسِ لِلشَّيْطَانِ كَمَا أَنَّ الشَّاذَّ مِنَ الْغَنَمِ لِلذِّئْبِ“ جماعت ایمانی کے ساتھ ہوجائو کہ اللہ کا ہاتھ اسی جماعت کے ساتھ ہے اور خبردار تفرقہ کی کوشش نہ کرنا کہ جو ایمانی جماعت سے کٹ جاتا ہے وہ اسی طرح شیطان کا شکار ہوجاتا ہے جس طرح گلہ سے الگ ہوجانے والی بھیڑ بھیڑیئے کی نذر ہوجاتی ہے۔
منبع و ماخذ
نہج البلاغہ، کلام ۱۲۷، ص۲۴۷، سید رضی، محمدبن ابی احمد حسین، مترجم: علامہ ذیشان حیدر جوادی، انتشارات انصاریان، قم ، چاپ چہارم، ۱۴۳۰ھ۔ق۔
Add new comment