اتحاد اور اسلامی معاشرے کے قیام کی انفراددی و اجتماعی ذمہ داری

Sun, 04/16/2017 - 11:11

چکیده:مقالہ ھذا میں امت اسلامی کا اتحاد قرآن کی نگاہ میں بیان کیا گیا ہے اس مقالہ میں اتحاد بین المسلمیں کی اہمیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔اور مسلمانوں کی فردی اور اجتماعی ذمہ داری کے ضمن میں اتحاد بیں المسلمین کا ذکر موجود ہے 

اتحاد اور اسلامی معاشرے کے قیام کی انفراددی و اجتماعی ذمہ داری

ایمان والو، اللہ سے اس طرح ڈرو جو ڈر نے کا حق ہے اور خبر دار اس وقت تک نہ مرناجب تک مسلمان نہ ہوجائو۔ اور اللہ کی رسی کو مظبوطی سے پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا کرو اور اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ تم آپس میں دشمن تھے اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی تو تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے اور تم جہنم کے کنارے پر تھے تو اس نے تمہیں نکال لیا اور اللہ اسی طرح اپنی آیتیں بیان کرتا ہے کہ شاید تم ہدایت یافتہ بن جائو۔ [1]

ان آیات بینات میں باری تعالی تمام مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ وہ تقوی اختیار کریں یعنی اللہ سے اس طرح ڈریں جس طرح ڈرنے کا حق ہے ۔یہ حکم تمام اہل اسلام کے لئے ہے کہ ان کی زندگی کا کوئی لمحہ خوف و خشیت خدا وندی سے خالی نہ ہو اور جب زندگی کا سفر تمام ہو اور موت کی گھڑی آ پہونچے تو وہ بھی حالت اسلام میں ہی آئے ، اس کے بعد ان کو اللہ کی رسی یعنی دین حق کی مظبوطی سے تھام کر باہمی اتحاد و اتفاق کی تلقین اور تفرقہ اور انتشارات سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔

آخر میں اس احسان کا ذکر کیا گیا ہے کہ کس طرح اللہ نے انهیں آگ کے گڑھے کے کنارے یعنی یقینی تباہی سے بچایا اور نفرت و کدورت کی جگہ ان کے دلوں میں باہمی محبت و الفت پیدا کردی ۔

علامہ طباطبائی اپنی کتاب المیزان میں فرماتے ہیں: قرآن مجید اسلام پر باقی و ثابت رہنے اور تقوی کو اختیار کرنے  کے سوا کسی اور چیز کی دعوت نہیں دیتا ان دونوں آیتوں (۱۰۲ و ۱۰۳)میں سے اس آیت (۱۰۳)کا غرض و مقصد وہ نہیں جو پہلی والی آیت (۱۰۲) کا ہے، کہ جس میں تقوی کو اختیار کرنے اور حالت اسلام میں مرنے کا حکم دیا گیا ہے، لہذا پہلی والی آیت کا حکم فرد پر عارض ہوتا ہے ، لیکن اس آیت (۱۰۳) کا حکم عموم و اجتماع پر عارض ہوتا ہے۔

پس ان دو ارشادات ربانی کی رو سے مسلمانوں پر ایک فعال و اسلامی معاشرہ کی قیام کے لئے دو قسم کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ایک انفراددی دوسرے اجتماعی۔

انفرادی ذمہ داری

اسلامی معاشرے کی کامیابی کی پہلی شرط یہ بیان کی گئی ہے کہ انفرادی حیثیت سے ہر فرد اپنی جگہ اپنی ذمہ داری مقدور بھر ادا کرے اس بارے میں ارشاد ربانی ہے ، لایکلف الله نفسا الا وسعها[2] اللہ نے کسی نفس کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔

اس آیت کریمہ میں جہاں انسانوں پر استطاعت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ ڈالنے کا ذکر ہے وہاں یہ بھی بالواسطہ مذکور ہے کہ ہر کسی کو اپنی اپنی طاقت و استطاعت کے مطابق انفرادی طور پر اپنی ذمہ داری نبھانا چاہئے ورنہ اس کا خدا کے وہاں مواخذہ ہو گا ۔

مسلم معاشرہ کے تمام افراد کا اپنے اندر انفرادی ذمہ داری کے احساس کا اجاگر کر لینا کامیابی و کامرانی کی خشت اول ہے، کیونکہ اصلاح احوال کی جانب پہلا قدم ہی تقوی کو پوری زندگی میں جاری و ساری کرنا قرار دیا گیا ہے(فاتقوالله ماستطعتم) تقوی کیا ہے؟ راغب اصفہانی المفردات میں فرماتے ہیں التقوی حفظ الشئ مما یوذیه و یضره[3]تقوی سے مراد کسی شئ کو اس چیز سے محفوظ رکھنا ہے جو اس تکلیف و نقصان پہونچائے ، تقوی کی تعریف ایک دوسرے مقام پر ان الفاظ میں بیان کی گئی ہےالتقوی حفظ النفس عما یوتم[4]تقوی سے مراد ہر اس شئ سے بچنا جو گناہ میں مبتلا کردے پاس انسان جب تقوی کی طرف گامزن ہوگا تو خودبخود انحرافات اور ان اشیاء سے بچے گا جو نقصان پہونچاتی ہیں، اس طرح وہ افتراق و اختلاف کے منحوس عمل سے محفوظ رہے گا اس لئے کہ اختلاف و افتراق ایک عمل زشت ہے اور عمل زشت کا تقوی میں کوئی دخل نہیں ہوتا۔

آیت مذکورہ ولا تموتن الا و انتم مسلمون فرما کر انتہائی اہم نکتہ ذہن نشین کرایا گیا ہے جینا اور مرنا سب کچھ اللہ کے لئے ہو زندگی بھی اسلام کی نذر ہو اور موت بھی ۔

گویا انفرادی ذمہ داری کے معنا یہ ہیں کہ بجائے دوسروں طعن و تشنیع کا نشانہ بنانے کہ ہر انسان اصلاح احوال کا آغاز خود اپنی ذات سے کرے ، وہ جہاں کہیں بھی جس حیثیت سے ہے سب سے پہلے اپنی اخلاقی ذمہ داریاں نبھائے دوسروں کے اصلاح کی توقع  کر کے نہ بیٹھا رہے ، اس وقت ہماری خرابی یہ ہے کہ  ہم اپنی انفرادی ذمہ داری عملا نبھانے کے بجائے دوسروں کو اپنی بے جا تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں اور اس طرح کہیں سے بھی اصلاح کا آغاز نہیں ہوپاتا۔

اجتماعی ذمہ داری

جیسا کہ پہلے کہا گیا کہ آیت ۱۰۲ کا حکم فرد پر عائد ہوتا ہے لیکن آیت ۱۰۳ کا حکم اجتماع پر اور معاشرہ پر عائد ہوتا ہے، اس کی دلیل اس آیت ۱۰۳ میں پائی جاتی ہے جمیعا و لا تفرقوا لہذا یہ آیت اسلامی معاشرہ کو کتاب و سنت سے متمسک رہنے کا حکم دیتی ہے، اسلامی معاشرہ کو صحیح خطوط پر منظم کرنے کی ذمہ داری مجموعی پر تمام امت اسلام پر ڈالی گئی ہے حضور اکرم ص کے بعثت زمانی  و مکانی حدود سے ما وراء قیامت تک کی نسل انسانی کے لئے ہے اس لئے اجتماعیت کا تصور اسلام کی فطرت کا جزء لاینفک ہے اجتماعیت جسد اسلام کی رگوں پئے میں اس طرح سمائی ہوئی ہے کہ حقوق اللہ ہو کہ حقوق العباد ہر جگہ اس کا رنگ نمایاں نظر آتا ہے ۔

حقوق العباد کی بہترین مثال نماز جماعت ہے  ارشاد معصوم ہے: من ترک الجماعۃ  منھا  و عن جماعۃ المسلمین من غیر علۃ فلا صلاۃ لہ جیسے جس کسی نے  نماز جماعت کو جان بوجه کر ترک کیا اور جماعت مسلمین سے روگردانی کی تو  اسکی نماز قابل قبول نہیں ہے۔[5]

حقوق العباد کی مثال بے شمار ہیں خداوند قدوس ارشاد فرماتا ہے ، مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں لہذا اپنے بھائیوں کے درمیان اصلاح کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو کہ شاید تم پر رحم کیا جائے ۔[6]

نیز ارشاد پروردگار ہے، ایمان والو اپنے عہدو پیمان و معاملات کی پابندی کرو نیکی اور تقوی پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور تعدی پر آپس میں تعاون نہ کرنا، اللہ سے ڈرتے رہنا کہ اس کا عذاب بہت سخت ہے ۔[7]

شجر اسلام کے برگ و بار کو زمانے کی بلائو ں اور آفتوں سے محفوظ کرنے کے لئے قرآن حکیم کی تعلیمات اور نبی اکرم ص کی سیرت طیبہ ہی مشعل راہ ہےلہذا فرقہ پرستی کے بلاخیز طوفانوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے بھی جس ضابطہ عمل کو اپنانے کی ضرورت ہے اسے قرآن و سنت کے تصور اجتماعیت پر مبنی ہونا چاہئے ۔

 

حوالہ جات:
[1]  يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ وَ لا تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَ أَنْتُمْ مُسْلِمُونَ. وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَميعاً وَ لا تَفَرَّقُوا وَ اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْداءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْواناً وَ كُنْتُمْ عَلى‏ شَفا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْها كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آياتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ  آل عمران ۱۰۲ و ۱۰۳
[2]   بقرہ ۲۸۶
[3]  المفردات
[4]  المفردات
[5]   بحار الانوار ج ۸۵ص۱۲
[6]  إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَ اتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُون .حجرات آیت ۱۰
[7]  يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُود...... وَ تَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوى‏ وَ لا تَعاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَ الْعُدْوانِ وَ اتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَديدُ الْعِقاب.... مائدہ آیت۱ و ۲
 

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 4 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 39